پروفیسر سیف اللہ خان

ذوالفقار علی بھٹو

بعض اوقات مجھ سے طالب علم (مرحوم) ذوالفقار علی بھٹو کے بارے پوچھ لیتے ہیں۔ ایک دو دفعہ عام افراد نے بھی چند سوالات کئے۔ اس لیے صرف معلوماتِ عامہ کے لیے یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ یہ میرے اپنے خیالات نہیں لیکن بھٹو پر شائع شدہ چند مضامین اور کچھ کتب سے اخذ کردہ چند عبارات ہیں، جن سے مرحوم کی شخصیت پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ کتابوں میں افتخار الدین خٹک (بھٹو سے متاثر ایک سابقہ بیوروکریٹ) کی کتاب ’’مشاہدات‘‘، رؤف کلاسرا (ایک معروف کالم نگار اور بڑے صحافی) کی کتاب ’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ سے بھٹو صاحب کا اورینا فلاس کو دیا گیا تفصیلی انٹرویو جب وہ صدرِ پاکستان تھے، بھٹو کی پھانسی پر مبنی احمد رضا قصوری ولد نواب محمد احمد خان قصوری (جس کے قتل کے الزام پر بھٹو کو سزائے موت دی گئی تھی، شائع شدہ ماہنامہ قومی ڈائجسٹ لاہور، اپریل 2015ء)، محترم حیدر جاوید سید صاحب کے کالم ’’سامراج دشمن شہید ذوالفقار علی بھٹو‘‘ روزنامہ مشرق پشاور مورخہ چار اپریل 2009ء اور محترم عمر سلیم صاحب کے کالم ’’بھٹو کا قاتل کون‘‘ روزنامہ آزادی اور ’’لفظونہ ڈاٹ کام‘‘ پچیس اکتوبر 2010ء سے استفادہ کیا گیا ہے۔ زیادہ تر فقرے انہی کتب اور کالموں سے لئے گئے ہیں اور صفحات کے جو نمبر تحریر کئے گئے ہیں، وہ انہی کتب کے ہیں۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو، تو اس کی اصلاح کیجئے گا۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ لیڈر کی قابلیت اپنی جگہ اہم ترین ہوتی ہے لیکن اُس کے ساتھیوں کی قابلیت اور اخلاص بھی بہت ضروری چیز ہوتے ہیں۔ کمزور اور خود غرض مصاحبین اچھے بھلے لیڈر کو ناکام کردیتے ہیں اور عمدہ مصاحبین اور ساتھی قابل لیڈر کی قابلیت کو مزید بڑھادیتے ہیں۔ قائد اعظم، قیامِ پاکستان کے وقت عمر رسیدہ اور بیمار تھے۔ قابل، مخلص دیانتدار اور ذہین تھے لیکن صرف ایک سال زندہ رہے اور وہ بھی شدید بیمار رہ کر فوت ہوگئے۔ اُن کے بعد آنے والوں میں وہ قابلیت، اخلاص اور حکمرانی و رہنمائی کے خواص نہیں تھے جو ایک نو آزاد کروڑوں انسانوں کے ہر طرح سے محروم ملک کے لیے ضروری تھے۔ اگست 1947ء سے 1958ء کے مار شل لا تک پاکستان کی کئی ایک اعلیٰ ترین سیاسی اور غیر سیاسی کرسیوں پر ایسے افراد براجمان رہے جو پاکستانی نہ تھے، جو ایک کلچر، ایک زبان اور ایک خطے کے باشندے بھی نہ تھے، اُن کے اندر جہاں بے شمار مخلص، قابل اور محبانِ پاکستان لوگ موجود تھے، وہاں اُن میں نالائق لالچی، خود غرض، خوفزدہ اور اپنے مستقبل سے غیر مطمئن سہمے ہوئے لوگوں کی بھی کمی نہ تھی۔ مسلم لیگ کے نام سے موسوم آپس میں لڑنے والوں کی جو انبوہ پاکستان کی حکومت پر آبیٹھی تھی، اُن میں اکثریت کو ایک پٹھان یا بلوچ حجرہ یا ایک پنجابی یا سندھی پنچایت چلانے (لیڈ کرنے) کا بھی تجربہ نہ تھا۔ اور وہ بن گئے کروڑوں انسانوں کے ایک لمبے چوڑے ملک کے حکمران۔ ایسے ملک کے لیڈر جس میں محکمے اور دفاتر تھے لیکن سردار اور عملہ نہیں تھا، جس میں سکول، ہسپتال، عدالتیں تھیں لیکن ڈاکٹرز، جج اور عملہ نہیں تھا جبکہ پاکستان کو قابل ترین سرداروں اور عملے کی ضرورت تھی۔ دوسری طرف اس کا بھائی ملک بھارت اس کا دوست نہیں لیکن کھلا اور خفیہ دشمن نکلا تھا۔ بھارت اگر دشمنی والا طریقہ نہ اپناتا، تو آج اُس کے پہلو بہ پہلو ایک مستحکم اور مضبوط بھائی کھڑا ہوتا۔ اُسے اور اس کے عوام کو ایک نہ ختم ہونے والے خطرے کا سامنا نہ ہوتا۔

بھٹو پاکستانی تھا۔ خدا نے اُس میں لیڈر شپ کے بہت سارے خواص پیدا کئے تھے لیکن بھارت دشمنی کے ماحول نے اُس کے مثبت خواص کو کمزور ترین کردیا اور اُس کے ڈھیر سارے اعلیٰ خواص سے یہ علاقہ استفادہ نہ کرسکا۔ بھٹو پاکستانی تھا۔ اسکندر مرزا مہاجر تھا۔ اس سے قبل لیاقت علی خان تک اکثریتی سیاسی اشرافیہ بھارتی مہاجرین پر مشتمل تھی۔ ایوب اور اُس کے بعد یحییٰ خان اور بھٹو پاکستانی تھے، ضیاء الحق مہاجر تھے، بے نظیر پاکستانی تھیں، محمد نواز شریف اور پرویز مشرف مہاجرین میں سے تھے۔ ان سب نے پاکستان کے حالات پر اپنے اپنے اثرات ثبت کئے جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ جناح، ایوب، یحییٰ، بھٹو اور بے نظیر کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے پاکستان کو لوٹ کر کھربوں روپیہ بیرونِ ملک منتقل کیا یا ملک کے اندر دولت کے انبار جمع کئے۔

ذوالفقار علی بھٹو پانچ جنوری 1928ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے خود کہا تھا کہ میری ماں کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا اور اُن کو دوسرے غریب لوگوں کی غربت بہت کھٹکتی تھی (ص 389 رؤف کلاسرا) بھٹو کے والد سرشاہنواز بھٹو سندھ کے بڑے وڈیرے جاگیر دار تھے اور جونا گڑھ کے نواب کے وزیراعظم تھے، سیاسی میدان میں سرگرم آدمی تھے اور سندھ کو الگ صوبہ بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ آپ نے سندھ یونایٹیڈ پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی تھی جس نے 1937ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ گویا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک سیاسی خاندان اور ماحول کے پروردہ تھے۔ بھٹو کی والدہ ایک ہندو ڈانسر تھی جس کے ساتھ سر شاہ نواز بھٹو نے نکاح کرکے قانونی طور پر اپنی زوجہ بنایا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا ابتدائی نام نتھورام بتایا جاتا ہے۔ غالباً یہ اس کی ماں کا دیا ہوا نام ہوگا۔ کیوں کہ اُس کا اپنا مستقل نام ذوالفقار علی تھا اور وہ مسلمان تھے۔ (حیدر جاوید سید روزنامہ مشرق چار اپریل 2009ء، مشاہدات از افتخار الدین خٹک صفحات 64-63)

بھٹو کی پہلی اور خاندانی بیوی امیر بیگم تھی جو آپ کی چچازاد اور مختار علی بھٹو (سابقہ چیف منسٹر سندھ) کی بہن تھی یہ آپ سے عمر میں بڑی تھی اس کی اولاد نہ تھی۔ دوسری بیوی نصرت بھٹو ایرانی تھی۔ یہ بے نظیر کی ماں تھی اور یہ بھی خاندانی عورت تھی۔ بے نظیر کی ایک بہن صنم بھٹو اور دوبھائی شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو، یہ دونوں بھائی بھی کسی نامعلوم طاقت نے قتل کئے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے پیپلز پارٹی کے سینئر ارکان میں احمد رضا قصوری ولد نواب محمد احمد خان قصوری تھے۔ ایک قاتلانہ حملے میں نواب احمد رضا خان قتل ہوئے۔ دعویٰ ذوالفقار علی بھٹو پر ہوا کہ یہ قتل اُس کے حکم پر ہوا۔ ایک بہت لمبے مقدمے کے بعد بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ مبصرین کہتے ہیں کہ پارٹی نے اپنے وکلا سے کام لیا تھاجو سیاسی وفادار زیادہ اور وکیل کم تھے۔ کہتے ہیں کہ وکلا کی نالائقی اور فضول سیاسی حربوں نے بھٹو کے کیس کو خراب کیا تھا۔

بھٹو ایک بہت ہی ذہین اور حد سے زیادہ دلیر شخص تھا لیکن اپنے وڈیرہ خون کی وجہ سے اس نے اپنے آپ کو بے شمار مشکلات سے دوچار کردیا تھا۔ رؤف کلاسرا کی کتاب ’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ میں اورینا فلاس لکھتی ہیں:

1:۔ بھٹو صاحب ایسے شخص ہیں جن کے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جاسکتی۔ وہ بہت تیزی سے اپنا ذہن بدلتے رہتے ہیں۔ ایک عجیب و غریب شخص ہیں جو اسی طرح کے فیصلے کرتے ہیں، تاہم یہ بات ماننی پڑے گی کہ وہ بہت ذہین شخص ہیں۔ لومڑ کی طرح بہت چالاک، دوسروں کو اپنی کوبصورتی سے متاثر کرنے والے یا انہیں کنفیوز کرنے والے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ اُن میں آپ کو ایک کلچر، روانی اور گہری یادداشت کی جھلکیاں بھی نظر آئیں گی (ص 353)۔

2:۔ آپ بھٹو صاحب کو جتنا بغور پڑھتے جائیں گے اتنے ہی آپ زیادہ کنفیوز اور غیر یقینی نتائج اخذ کرتے جائیں گے (ص354)۔

آپ جس طریقے سے بھی دیکھیں گے وہی آپ کو درست لگے گا۔ بھٹو صاحب آپ کو ایک لبرل ایک سخت گیر حکمران، فاشسٹ، کمیونسٹ، ایک انتہائی مخلص اور ایک جھوٹے شخص بھی لگیں گے (ص354)۔

مجھے یہ کہنے میں حرج نہیں کہ بھٹو صاحب ہمارے وقت کے سب سے مشکل لیڈر ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر اس وقت کوئی بھی پاکستان کو محفوظ رکھ سکتا ہے، تو وہ بھٹو صاحب ہے۔ آپ کو یہ بات ہر کوئی بتائے گا کہ بھٹو کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے دولت مند گھرانے میں پیدا ہوئے، جہاں کوئی چیز ناممکن نہیں۔ ابھی ان کی عمر تیس سال تھی کہ وہ ایوب کے دور میں وزیر بن گئے تھے۔ وہ ایوب سے شدید نفرت کرتے تھے (ص 354-55) چالیس سال ہونے سے قبل یحییٰ کے وزیر بن گئے تھے۔ ان سے بھی وہ نفرت کرتے تھے۔

3:۔ بھٹو صاحب کو بھی طاقت سے پیار تھا۔ وہ اُن سیاست دانوں کے بارے میں آپ کو پہلے ہی سے خبردار کردیتے ہیں جو سچ بولتے ہیں یا ایک بوائے سکاؤٹ موریلٹی کو اپنی شخصیت کا حصہ بنالیتے ہیں۔ جب آپ بھٹو کو سن رہے ہوتے ہیں، تو آپ تقریباً اس بات پر یقین رکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ شاید اُن کی خواہشات بہت اچھی ہیں اور وہ یقینا ایک اچھا سوشلزم پاکستان میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی لائبریری مسولینی اور ہٹلر جسے فاشسٹ لیڈروں کی کتب سے بھری ہے۔ (ص 355)۔

4:۔ بھٹو نے کہا مجیب الرحمن بنگلہ دیش والا ایک پیدائشی جھوٹا شخص ہے۔ (ص362)۔

5:۔ بھٹو نے کہا تھا کہ 25 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں ملٹری آپریشن سے پچاس ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ مجیب اس کو تیس لاکھ اور بھارت نے دس لاکھ بتایا جبکہ کچھ مشنریوں نے تیس ہزار بتایا۔ (ص362)۔

6:۔ مشرقی پاکستان پر حملے کا جواز پیدا کرنے کے لیے اندرا گاندھی (بھارت وزیر اعظم) نے کہا تھا کہ ایک کروڑ لوگ ان کے یہاں پناہ گزین ہوئے۔ (ص363)۔

7:۔ اندرا گاندھی اور بھٹو میں اختلاف یوں پیدا ہوا کہ اندرا نے اپنے ایک انٹرویو میں بھٹو کو ’’غیر متوازن شخص‘‘ کہا تھا۔ آپ ایک دن ایک بات کرتے ہیں، دوسرے دن دوسری۔ وہ یہ بھی کہتی تھی کہ آپ کے بارے میں کسی کو کوئی پتا نہیں چلتا کہ آپ کے ذہن میں کیا ہے؟ (ص 378)۔

8:۔ بھٹو نے کہا کہ ہر حکومت کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب ضروری ہو وہ طاقت کو استعمال کرے۔ آپ بغیر کسی چیز کو تباہ کئے کوئی چیز تعمیر نہیں کرسکتے۔ ایک ملک بنانے کے لیے سٹالن کو طاقت استعمال کرنا پڑا۔ اُسے بہت سارے لوگوں کو قتل بھی کرنا پڑا تھا۔ ماوزے تنگ (چین) کو بھی بہت سارے لوگوں کو مار (ڈالنے) کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑا تھا (ص 364)۔

9:۔ مجیب (بنگلہ دیش) نے بھٹو سے تنہائی میں کہا کہ مغربی پاکستان تم رکھ لو اور مشرقی پاکستان مجھے دے دو (ص368)۔ بھٹو نے جواب میں کہا: ’’میں پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنا نہیں چاہتا۔ اگر وہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے، تو اُسے چاہئے کہ قومی اسمبلی میں معاملہ اٹھائے اور اپنی عددی برتری پر بھروسہ کرے (368) ۔

10:۔ میں بہت جذباتی آدمی ہوں (ص381)۔ میری شخصیت تضادات سے بھری ہے۔ میں مشرق اور مغرب کا عجیب سا ملاپ ہوں اور ایک مسلم گھرانے میں میری پرورش ہوئی ہے۔ میرا ذہن مغربی اور میری روح مشرقی ہے، جہاں تک میری دو بیویوں کی بات ہے، میں اس بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میری شادی اُس وقت کردی گئی تھی جب میں تیرہ سال کا تھا۔ میری پہلی بیوی میری کزن تھی اور وہ 23 برس کی تھی۔ اس وقت تو مجھے یہ بھی پتا نہیں تھا کہ بیوی کیا چیز ہوتی ہے؟ مجھے اس وقت بیوی نہیں چاہئے تھی۔ میں کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا۔ مجھے اس شادی پر راضی کرنے کے لیے انہوں نے مجھے کرکٹ کے دو نئے بیگز خرید کر دیئے۔ جوں ہی میری شادی کی رسومات ختم ہوئیں میں بھاگ کر کرکٹ کھیلنے چلا گیا (ص382)۔

11:۔ میں معاشی معاملات میں اپنے آپ کو مارکسٹ کہتا ہوں۔ ایک اچھے مسلمان کی طرح میں خدا پر ایمان رکھتا ہوں (ص 384)۔

12:۔ میں اچانک خونی انقلاب افورڈ نہیں کرسکتا۔ پاکستان ایسے انقلابات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا ہوا تو بہت بڑی سیاسی تباہی ہوگی۔ لہٰذا مجھے انتہائی صبر کے ساتھ اصلاحات متعارف کروانی ہوں گی اور ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو دھیرے دھیرے ہمیں سوشلزم کی طرف لے جائیں۔ مجھے صبر کرنا ہوگا۔ یہ ایک بیمار معاشرہ ہے۔ ہم صدیوں تک سوتے رہے ہیں۔

نظریاتی اختلاف اپنی جگہ، غلطیاں اور مظالم اپنی جگہ لیکن بھٹو اگر اپنے پیچھے تربیت یافتہ اور مشنری لوگ چھوڑ دیتے، تو بہت اچھا ہوتا۔ عام لوگوں نے سچائی کے ساتھ اُس کی پارٹی کو اپنایا لیکن وہ ہر دلعزیز پارٹی اپنی غیر سنجیدہ اور نقصان دہ پالیسیوں کی بنا پر عوام کی جگہ چند افراد کی پارٹی بن گئی۔ آج اس پارٹی کے پاس کوئی انقلابی پروگرام نہیں بلکہ یہ بھی رجعت پسند سرمایہ پرست جماعت بن گئی ہے۔

Related Articles

Loading...
Back to top button