انسان سے انسانیت تک |محمد آصف تبسم
انسان ازل سے انسانی زندگی کے معنی تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔ہر انسان اپنی زندگی کے ساتھ کوئی نہ کوئی معنی جوڑنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اپنے مخرج سے دوبارہ ملنے کے لئے، انسانی روح کو خدا اور اس کے بندوں سے مضبوط رشتہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔خالق سے محبت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اسکی تخلیق سے محبت کرنا سیکھیں۔یعنی انسانوں اور نوع انسانی سے محبت کیے بغیر کسی کو فیض الٰہی حاصل نہیں ہو سکتا۔مختصر یہ کہ انسانی نجات کے لئے، خدا اور اسکی مخلوق سے محبت لازمی ہے۔
انسانیت کیا موجودہ زمانے کی ایجاد کردہ کوئی نئی چیز ہے؟ کیا پہلے زمانے کے لوگوں میں انسانیت نہیں ہوتی تھی؟ کیا انسانیت کا ٹکراؤ تمام مذاہب سے ہے یا جو مذہب کو مانتا ہے وہ انسانیت کو نہیں مانتا؟ اس طرح کے اور بہت سے سوالات ہیں جو لفظ انسانیت یا مذہب انسانیت کے متعلق ہمارے ذہنوں میں پیدا ہو رہے ہیں۔جنہوں نے لفظ انسانیت کو ایک نئی اصطلاح کے طور پر پیش کیا افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ انسان کی پیدائش انسان کے ذریعے کو ہی نہیں مانتے بلکہ بندر کو جد امجد مانتے ہیں۔اب انسان کو انسانیت کا درس کس نے دیا؟ جتنی بھی کتابیں اب چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر کی ہوں آپ اٹھا کر دیکھ لیں وہ یہی کہیں گی کہ الہامی ادیان نے ہی انسان کو بتایا تم جانور نہیں ہو نہ ہی کوئی اور مخلوق ہو تم اشرف المخلوقات ہو۔تمہارا کام صرف بچے پیدا کرنا یا دنیا میں کمائی کرنا نہیں ہے تم بہترین ہو تم سب سے افضل ہو اب جس نے خود کو پہچان لیا کامیاب ہو گیا اور جو ایسا نہ کر سکا ناکام ہو گیا۔انسان نے اپنے اندر کی انسانیت کو جگا لیا تو کامیاب ہو گیا ورنہ تو حیوانیت غالب آ گئی۔اب انسان کو کیا چیز تمام مخلوقات پر فوقیت دیتی ہے وہ ہے انسان کی سوچ پھر اس کو عملی جامہ پہنانا اب اسی سوچ کے ذریعے انسان تعلیم کو عام کرتا ہے قوانین بناتا ہے علاج کرتا ہے اپنی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے جبکہ باقی مخلوقات اس سے محروم ہیں۔انسان جب اپنے حقیقی رشتوں کی پہچان کرتا ہے تب انسانیت کی معراج پر ہوتا ہے اگر وہ مادر پدر آزادی کی طرف سفر شروع کر دے تو کیسا انسان؟ پھر تو ایک بلی اس پر برتری لے گئی جو جسمانی بندھن بھی جنس مخالف سے چھپ کر باندھتی ہے۔انسان اگر حق سچ کے ساتھ فیصلہ کرے چاہے اسے اپنی قوم اپنے سگے بھائی کے خلاف گواہی دینی پڑے وہ دے تب تو انسانیت کی معراج پر ہے ورنہ وہ اپنی قوم کو ترجیح دے دے تب تو جانوروں جیسا ہی ہو گیا کہ صرف میری ہم نسل ہی دنیا میں سب سے بہترین ہے۔اگر انسان پوری دنیا میں یکساں انصاف دینے کا خواہشمند ہے تب تو انسان ہے ورنہ کیسی انسانیت؟ یہ کیسی انسانیت ہے جو رنگ و نسل میں بٹ چکی ہے؟ یہ کیسی انسانیت ہے جو صرف اپنے ہم مذہب اپنی قوم اپنے وطن کو ہی ہمیشہ حق پر سمجھتی ہے؟ یہ کیسی انسانیت ہے جو فطرت کے ساتھ ٹکراؤ کو غیر فطری نہیں سمجھتی؟ یہ کیسی انسانیت ہے جو اپنے بستر میں کتے کو سلانے اور اپنے ماں باپ کو گھر سے نکالنے پر فخر محسوس کرتی ہے؟ یہ کیسی انسانیت ہے جس کے ساتھ اس کا من ہو صرف اسی سے محبت کرتی ہے اور جس کے ساتھ ذرا سا بھی اختلاف ہو اسے واجب القتل قرار دے؟انسانیت کے نام پر کھوکھلے نعرے لگانے والے کیا عمل سے بھی انسانیت ثابت کریں گے یا ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی انسانیت کے نام پر پوری دنیا کے انسانوں کو دھوکہ دیں گے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف مفاد پرست اور خود غرض انسان ہی بستے ہیں۔ لوگ یہی خیال کرتے ہیں کہ دنیا سے مخلص، دوسروں کے کام آنے والے اور دوسروں کی مدد کرنے والے انسان بالکل معدوم ہوچکے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں کہ دنیا مخلص اور دردمند انسانوں سے بالکل خالی ہوگئی ہے، بلکہ آج بھی اپنی غرض سے بالاتر ہو کر انسانیت کے لیے کام کرنے والے بہت سے مخلص انسان دنیا میں موجود ہیں۔ آج بھی ایسے بہت سے انسان اس دھرتی پر چلتے پھرتے ہیں، جنھیں دوسروں کی مدد کرکے دلی خوشی اور سکون حاصل ہوتا ہے۔اس دور میں بھی وقتاً فوقتاً درد دل رکھنے والے افراد کے انسانوں کے لیے قربانیوں کے بے بہا واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اچھے اور برے انسان ضرور ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان دوسروں کی خود غرضی اور مفاد پرستی کو دیکھتے ہوئے خود بھی ان کی راہ پر چل پڑے۔ بلکہ انسان کو فی زمانہ جتنی انسانیت کی ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہر انسان اگر یہ عہد کر لے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں ضرورت پڑے اور موقع ملے تو ضرور دوسروں کی مدد کرے گا، مجبور اور ضرورت مند لوگوں کی چھوٹی بڑی ضروریات حل کرنے میں مکمل تعاون کرے گا۔کسی غریب طالب علم کی تعلیم کا خرچ، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کا خرچ، کسی بے روزگار کی نوکری کا انتظام، کسی غریب بیمار کے علاج کا انتظام اور موقع ملنے پر ہر ایسا کام کرے گا، جس سے کسی انسان کی ضرورت پوری ہوتی ہو، یقین کیجیے اس سے دنیا بدل جائے گی۔ دنیا میں سکون ہی سکون کا راج ہوگا اور محبت کی حکمرانی ہوگی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دوسروں کی مدد کرنا صرف دوسروں کے لیے ہی فائدہ مند نہیں ہے، بلکہ اس سے مدد کرنے والے کو بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
آج کل بہت سے مسلم معاشرے مثلاً پاکستان کو فرقہ واریت اور تشدد کے نام پر ایسے ہی کڑے چلینجوں کا سامنا ہے۔کبھی کبھی یہ جھگڑے، مذہب کی الگ الگ ترجمانی کا نتیجہ ہوتے ہیںیہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات مخالف نظریات کو کم ہی قبول اور برداشت کیا جاتا ہے۔چناچہ معاشرہ تشدد اور جھگڑوں کی گرفت میں آجاتا ہے۔ایسی صورتحال میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ایسے ادب کو روشنی میں لایا جائے جو معاشرے میں امن و آشتی کو فروغ دے اور یہ تب ہی ہو گا جب ہم انسانیت کو سمجھ جائیں گے ۔۔!!
نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔