ایک اور کنٹینر الٹ گیا

ایک اور کنٹینر الٹ گیا | پروفیسر سیف اللہ خان

گیارہ یا بارہ جولائی 2017ء کو ایک نجی ٹیلی ویژن چینل نے خبر دی کہ پشاور کے قریب جھگڑا نامی گاؤں میں تیل لے جانے والا ٹرک الٹ گیا اور امدادی عملہ وہاں پہنچ گیا۔ تیل لے جانے والے ٹینکروں کے الٹ جانے کے واقعات اس طرح تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں، جس طرح عمارات میں آتشزدگی کے واقعات ہورہے ہیں۔ عذابوں کی اشکال نہیں ہوتیں کہ کوئی اُن کو دیکھ سکے۔ یہی واقعات اور دوسرے واقعات عذاب ہی ہیں۔ عذابوں سے بچنے کے لیے طریقے قرآن و سنت میں بے شمار مذکور ہیں لیکن عوام اور خواص دونوں کو اُن کی جگہ روایتوں اور حکایات سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔ قرآن و احادیث دیانت، امانت، سچ، راست بازی اور خدا خوفی کی تعلیمات دیتی ہیں اور کسی بھی انسانی معاشرے میں مشکلات کے اسباب ان اور ان قسم کے اصولوں سے انحراف کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔ کچھ ہی دن قبل احمد پور شرقیہ کے قریب اسی قسم کے ایک حادثے کے نتیجے میں دو سو سے زیادہ نوجوان افراد اور بچے بھسم ہوکر لقمۂ اجل بن گئے۔ ’’اوگرا‘‘ نے مبینہ طور پر تیل کمپنی کو ذمہ دار ٹھہرایا کہ ٹینکر معیاری نہ تھا۔ اُس حادثے کے بعد کئی اور اُسی قسم کی حادثوں کی خبریں آئیں، جھگڑا کے مقام پر موجودہ حادثہ تا دم تحریر آخری ہے۔ خدا کرے کہ ’’وزیر حادثات‘‘ نہ ہوں جن کے امکانات موجود ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ غالباً رشوت میں درجۂ اول پر ہے۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ موٹر سائیکل کا مالک ہو یا ٹرک، ٹرالر یا بس، منی بس کا مالک ہو۔ آپ کو ایسا نہ ملے گا جو کسی نہ کسی وقت رشوت دینے پر مجبور نہ کیا جاتا ہوگا۔ یہ متعلقہ محکموں کے متعلقہ اہلکاروں کی بد بختی ہی ہے کہ لوگوں کی طرف سے اُن کو دعائیں نصیب نہیں ہوتیں۔ مارشل لائی حکومتوں کو چھوڑ کر ہم نے ایسی حکومت کبھی دیکھی نہیں جو اصلاحِ احوال کی قابلیت رکھتی ہو۔ مارشل لائی حکومت بھی چند ہفتے اور چند مہینے تک درست کام کرتی ہے، جوں ہی ’’الراشی و المرتشی‘‘ اپنے اپنے ریلوں سے نکل کر دفاتر میں پھر پہنچ جاتے ہیں؂، مارشل لا کے باوجود جرائم شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے فن کے استاد ہوتے ہیں۔ یہ مارشل لا والوں کو اندھیرے میں رکھنے کی بڑی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ 1972ء سے ایسی حکومتی پالیسیاں اور طور طریقے شروع کردیئے گئے ہیں کہ حکومتی محکمے اور ادارے کارکردگی کی کمترین سطح کو چھونے لگے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ اطمینان بخش کام نہیں کرتا اور وجہ یہ ہے کہ مختلف وجوہات نے ان کو مغلوب اور جرائم پیشہ طبقات یا افراد کو غالب کردیا ہے۔ اس لیے ایسی صورت حال میں ہمیں کسی بہتری کی امید نہیں ہے۔ اس معاشرے میں جرائم کی سزا اس معاشرے میں رہنے والوں ہی کو مل رہی ہے۔ غلطیاں اور کوتاہیاں ہم لوگ ہی کرتے ہیں۔ آج کل اخبارات میں ’’آل سوات کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن‘‘ کی طرف سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ کے تبادلے اور کسی ’’دیانتدار‘‘ آفیسر کی تعیناتی کے مطالبے اور اشتہارات شائع ہورہے ہیں۔ سوات کے حالات ہم سب جانتے ہیں کہ یہاں کون کیا کررہا ہے؟ لیکن نبی کریمؐ کا حکم ہے کہ کسی فریادی پر کوئی حاکم اُس وقت تک فیصلہ نہیں کرے گا، جب تک دوسرے فریق کو نہ سنا جائے۔ ہمارے الحاج اور نیک و فرشتہ سیرت کنٹریکٹرز حضرات اگر اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن سے بات کرتے، تو وہ اُن کی بہتر مدد کرتا۔ ممکن ہے کہ محکمہ بلدیات کا آفیسر بد دیانت نہ ہو۔ خیر، اُس کے تبادلے کے لیے ٹھیکہ دار حضرات نے کافی راستہ ہموار کردیا ہے۔ اُسے جلدی سوات بدر کئے جانے کا امکان ہے۔ لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے سوات سے اچھے اور برائیوں کے سامنے ڈٹ جانے والے افسران کو اسی طرح کی اشتہارات، خبروں، ہڑتالوں اور اپیلوں کے ذریعے تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔ بلکہ یہ طریقے پولیس افسران جیسے بااثر لوگوں کو بھی ضلع بدر کرچکے ہیں اور اب سوات کی حالت سب کے سامنے ہے۔ ہمیں اُمید نہیں کہ ٹریفک کے حادثات میں کمی آجائے گی لیکن پھر بھی ہم اس ’’الراشی والمرتشی‘‘ ماحول میں عرض کرتے ہیں کہ 1:۔ حکومت صنعت کاروں اور باڈی میکروں کو معیاری ٹینکرز کا نمونہ بتادے اور اُسی قسم کی مینو فیکچرنگ پر اُن کی تربیت کروائیں۔ 2:۔ ٹرانسپورٹ سے متعلقہ محکمہ کافی کمزور ہوگیا ہے۔ کمزوریاں کئی شکلوں میں ہوتی ہیں، اس لیے اس محکمے کی اصلاح فوری طور پر کروائی جائے۔ خصوصاً اس محکمے میں مبینہ رشوت خوری کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا جائے۔ 3:۔ ٹرانسپورٹروں اور ڈرائیوروں کی مسلسل تربیت کا طریقۂ کار شروع کیا جائے، تاکہ وہ ناسمجھی کی وجہ سے ارتکاب جرائم نہ کرے۔ اُن کے اوقاتِ کار، اُن کے آرام، علاج معالجہ اور اُن کی ذہنی آسودگی کے لیے کام کئے جائیں۔ اُن کی کارکردگی کو متاثر کرنے والے تمام عوامل کی اصلاح کی جائے۔ 4:۔ گاڑیوں کی دیکھ بھال والے مستری ہوں یا ڈرائیورز کوئی بھی فزکس کے اصول نہیں جانتا جبکہ ٹریفک حادثات کی اکثر وجوہات یہی ہوتی ہیں۔ ان لوگوں کی تربیت ضروری ہے۔ اس طرح ناقص مرمت اور پرزے بھی حوادث کی وجوہات بنتی ہیں۔ تیز رفتاری، سبقت کی کوشش اور غلط اوور ٹیکنگ کے بارے میں ڈرائیوروں کی تربیت ضروری ہے۔ 5:۔ بعض ٹریفک پولیس اور اکسائز والے جرمانوں پر یا انڈر ہینڈز پر یقین رکھتے ہیں۔ حالاں کہ ان کو چاہئے کہ ہمارے ٹھیکہ داری نظام کی سڑکوں کے معیار کے مطابق گاڑی کے حجم اور وزن کو بھی دیکھ کر حکومت کو تبدیلیوں کی سفارش کیا کریں۔ وہ سڑکوں کے ذمہ دار محکموں کی کارکردگی پر بھی مؤثر نظر رکھا کریں۔ کیوں کہ کئی حادثات سڑکوں کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں۔ 6:۔ ٹریفک پولیس یہ بھی حکومت کو بتایا کرے کہ ہماری سڑکوں کا معیار اتنا اچھا نہیں، جن پر بین الاقوامی معیار کا بوجھ ڈالا جائے۔ اس لیے ٹرکوں وغیرہ کے لیے وزن اور حجم کا تعین کرواکر روبہ عمل لایا جائے۔ 7:۔ سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالات کو فوری طور پر درست کروایا جائے اور گاڑیوں کے انجن باڈی وغیرہ پاکستانی سڑکوں کے مطابق مینوفیکچر ہوں۔ موٹرویز سمیت پاکستان کی ٹھیکہ داری نظام والی سڑکیں کسی بھی صورت میں بین الاقوامی معیار کی نہیں ہیں۔ خراب سڑکیں بھی خوفناک حادثات کا باعث ہوتی ہیں۔ 8:۔ ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں اور سڑکوں کے کناروں پر یا قریب آباد دیہاتوں کے افراد کو فرسٹ ایڈ اور اس قسم کے حادثات سے نمٹنے کی تربیت دی جائے۔