ایک دلچسپ روداد

مجھے تو پاکستانی عدالتی نظام اور قوانین کا علم تو نہیں لیکن ویسے ہی ایک خیال آیا کہ اس پورے نظام میں قرض کی وصولی کا کوئی طریقہ وضع شدہ نہیں۔ عام آدمی اگر ایک دوسرے کا قرضہ کھا کر ہضم کرتے ہیں، تو کوئی عدالت آپ کی وصولی نہیں کرسکتی۔ پھر بڑے سرمایہ دار تو اربوں روپیہ قومی بینکوں سے لے کر بغیر ڈکار کے ہضم کرتے ہیں۔

ہماری ریاست سوات کے دور میں قرضہ کی وصولی کا نہایت آسان طریقۂ کار تھا۔ آپ سے کسی نے قرضہ لیا ہے اور وہ واپسی میں ٹال مٹول کر رہا ہے، تو آپ ریاست کے کسی بھی عدالتی حاکم یا براہِ راست حکمران سے درخواست کرتے کہ فلاں ولد فلاں کے ذمے میرا اتنا قرضہ ہے اور وہ واپسی میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ اس کے بعد مقروض کو فوری طور پر گرفتار کیا جاتا اور اگر قرض خواہ اسے مہلت دینے سے انکار کرتا، تو مقروض کو قرضہ کی ادائیگی تک جیل بھیج دیا جاتا۔ قرض خواہ ایک مخصوص رقم حکومت کے خزانے میں جمع کرتا جو عام طور پر دس روپیہ ماہوار بنتا تھا، یہ اس قیدی کی خوراک کی مد میں قرض خواہ سے وصول کیا جاتا اور جب تک مقروض اور مدعی کا آپس میں تصفیہ نہیں ہوجاتا، وہ جیل میں پڑا رہتا۔

اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ میرے بچپن میں مجھے محمد شیرین کمان افسر (بعد میں یہ عہدہ ’’کپتان‘‘ کہلانے لگا تھا) نے سنایا تھا۔ ان کے بقول انہوں نے ایک گوجر کے ہاتھ بھینس فروخت کی۔ اُس دور میں پانچ سو سے لے کر ایک ہزار تک اچھی بھینس ملتی تھی۔ گوجر نے تھوڑی سے ادائیگی کی اور زیادہ رقم کے لیے تین ماہ کی مہلت مانگی۔ اسی مہلت کے دوران میں وہ مع اہل و عیال و مال مویشی کسی نہ کسی طرح سوات سے نکل گیا اور شہباز گڑھ وغیرہ میں کہیں روپوش ہوگیا۔

مرحوم محمد شیرین کپتان صاحب کی ذاتی مراسم زیادہ تھیں۔ انہوں نے کسی نہ کسی ذریعے سے گوجر کا ٹھکانا معلوم کیا۔ اب اُس کو قانون کے شکنجے میں لانے کا مسئلہ تھا۔ والی صاحب کا دستور تھا کہ ہر رات کے کھانے پر کچھ افسروں کو بلاتے۔ یہ لوگ کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد مل بیٹھ کر مختلف ریاستی مسائل پر بات کرتے۔ ایسی ہی ایک محفل میں محمد شیرین کپتان صاحب نے اپنا مسئلہ حکمران سوات کے گوش گزار کیا۔ انہوں نے کہا کہ تم جس علاقے کی بات کرتے ہو، وہاں تو پاکستان کا قانون چلتا ہے۔ ہم ایسا کریں گے کہ ملاکنڈ کے پولی ٹیکل ایجنٹ کو فون کرکے تمہارا مسئلہ بتائیں گے اور باقی کام وہ کرے گا۔ کپتان صاحب علی الصباح تانگے میں ملاکنڈ چلے گئے۔ اُن دنوں سوات سے کوئی باقاعدہ ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں تھا۔ کپتان پی اے سے ملے۔ پی اے نے اس کو مردان کے اسسٹنٹ کمشنر کے نام خط دیا اور لیوی کے تین سپاہی اس کے ساتھ بھیج دیئے۔ اب ان کو نہ صرف اپنا بلکہ لیوی کے سپاہیوں کا خرچہ و کرایہ بھی ادا کرنا پڑگیا۔ جب یہ لوگ مردان پہنچے، تو اے سی مردان نے کہا کہ بندوبستی علاقہ میں لیوی کے سپاہی کارروائی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا تین پولیس سپاہی تمہارے ساتھ جائیں گے۔ گوجر کو گرفتار کرکے مردان لایا جائے گا اور قانونی کارروائی کی تکمیل کے بعد لیوی کے سپاہی اس کو اپنی تحویل میں لے کر اسے لنڈاکی کے مقام پر سوات پولیس کے حوالہ کریں گے۔ اب کپتان صاحب کو نہ صرف چھے پاکستانی اہل کاروں کا خرچہ اُٹھانا پڑا بلکہ گوجر کی گرفتاری پر اور چائے پانی کے نام پر نقد رقم بھی دینا پڑی۔ اسی طرح اصل زر کے برابر ان کو مزید مالی نقصان اُٹھانا پڑا، مگر کپتان صاحب بڑے ہوشیار آدمی تھے۔ انہوں نے پی اے ملاکنڈ کے حضور مان لیا کہ وہ اصل قرضہ کے علاوہ باقی خرچ شدہ رقم بھی ادا کریں گے۔ اس کو ایک تحریری دستاویز کی شکل دی گئی اور پی اے ملاکنڈ نے اس پر اپنے دستخط ثبت کئے۔

گوجر نے تو ساری بات مان لی، مگر جب سیدوشریف پہنچا، تو کہنے لگا کہ اُس کے پاس ادائیگی کے لیے کچھ بھی نہیں۔ گوجر کو تا ادائیگیِ قرض جیل جانے کی سزا سنائی گئی، تو کپتان صاحب نے سال بھر کے پیسے سرکاری خزانے میں جمع کرادیئے اور کہا کہ اب اگر یہ ساری زندگی جیل میں رہے، وہ خرچہ بھی برداشت کریں گے۔ اس قول کے کچے شخص نے مجھے بہت دوڑایا ہے اور پاکستانی دفتروں کے چکر لگوائے ہیں۔ اگر یہ نہ بھاگتا، تو میں ضرور اس کو مہلت دیتا۔ مگر اس کی وجہ سے میں اس بھاگ دوڑ میں تھک گیا ہوں۔ اب اسے چھوڑوں گا نہیں۔ رات کو کھانے پر والی صاحب نے کپتان صاحب سے پوچھا: ’’شیرین! تم نے گوجر کا معاملہ کیسے طے کیا؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’صاحب! مجھے پاکستان نے۔۔۔ اور میں نے گوجر ۔۔۔‘‘ سب حاضرینِ دربار کپتان صاحب کے اس بات پر قہقہہ لگانے لگے۔ محمد شیرین کپتان صاحب بڑے صاف گو اور ڈنکے کی چوٹ پر بات کرنے والے انسان تھے، وہ بہت فرض شناس افسر تھے۔ ان کی دیانتداری کا ذکر والی صاحب نے فریڈرک بارتھ سے اپنی سوانح عمری لکھواتے وقت بھی کیا تھا۔ جلد ہی اس نے گوجر کے بچوں پر رحم کھاتے ہوئے اُسے جیل سے نکلوادیا۔

ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد والی صاحب نے اُن کو بطورمنصف مقرر کردیا۔ اس کو کپتان کی حیثیت سے جتنی تنخواہ ملتی تھی، وہ جاری رکھی۔

ان کے لیے والی صاحب کے سیکرٹریٹ میں علیحدہ دفتر مخصوص کردیا اور متعلقہ عملہ بھی مہیا کردیا۔ ان کے شرکائے کار میں اوڈیگرام کے عبدالخالق خان بھی شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ تمام رفتہ گان کے درجات بلند کرے، آمین۔