آپ نے جگہ جگہ اس قسم کے بورڈ یا تختیاں دیکھی ہوں گی جس پر نمایاں لفظوں میں کسی ایم پی اے یا ایم این اے کا نام لکھا ہوتا ہے اور اس سے پہلے ’’بدست مبارک جناب……‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ کہیں کسی نے ہزار روپیہ کا کوڑے دان بنایا ہے یا دو تین سو فٹ گلی پختہ کی ہے اور وہ بھی قومی خزانہ سے، لیکن نام اُس پر عوامی نمائندے کا ہی ہوگا۔ یہ حضرات جو ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں جاتے ہیں اور اسی معاشرہ کا حصہ ہیں، تو ان کے ہاتھ مبارک کیسے ہوگئے؟ جب سارا معاشرہ نامبارک ہو اور کرپشن بدعنوانی اور اقربا پروری عادتِ ثانیہ ہو، لوگ دیدہ دلیری سے لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوں، تو ایسے ماحول میں مبارک ہاتھ کیسے رہ جاتے ہیں؟
مرحوم والئی سوات کے عہد بابرکت میں سیکڑوں سکول، کالج اور صحت کے مراکز تعمیر ہوئے، سیکڑوں میل لمبی سڑکیں پختہ کی گئیں اور بڑے بڑے پل بنوائے گئے لیکن کہیں بھی ’’بدست مبارک‘‘ والی تختی یا بورڈ نظر نہیں آتے۔ اُن سے ایک مغربی مصنف نے اس بارے میں پوچھا بھی تھا، تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ “اس میں میرا کیا کمال ہے؟ یہ تو قوم کی امانت ہے جو میں اُن کو واپس کر رہا ہوں۔ میری ذاتی دولت سے تو یہ کام نہیں ہو رہے۔” (حوالہ کے لیے دیکھیے فریڈرک بارتھ کی کتاب ’’دی لاسٹ والی آف سوات‘‘)
والی صاحب سے ایک مغربی مصنف نے ترقیاتی کاموں بارے پوچھا بھی تھا، تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ “اس میں میرا کیا کمال ہے؟ یہ تو قوم کی امانت ہے جو میں اُن کو واپس کر رہا ہوں۔ میری ذاتی دولت سے تو یہ کام نہیں ہو رہے۔”
یہ تو چھوٹے موٹے کاموں کا ذکر ہے جو ہر ایم پی اے یا ایم این اے اپنے اُس صوابدیدی فنڈ کے کچھ حصہ سے بنواتے ہیں جس فنڈ کا کوئی قانونی، اخلاقی یا شرعی جواز نہیں۔ پوری دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے پارلیمانی نمائندوں کو سیاسی رشوت کے طور پر فنڈز ملتے ہیں اور یہ فنڈز جس بے ہودہ طریقہ سے ٹھکانے لگائے جاتے ہیں، وہ ہر ذی شعور انسان کے لیے باعث شرم ہے۔ ’’بدست مبارک‘‘ کی اندرونی تفصیلات اگر منظر عام پر آجائیں، تو سادہ دل عوام سر پکڑ کر رہ جائیں۔
غالباً 1995ء کا واقعہ ہے میں ان دنوں ڈگر میں تھا۔ وہاں پر ایک ایم پی اے کے انتقال کی وجہ سے خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخابات ہورہے تھے۔ صوبائی حکومت ہر حالت اور ہر قیمت پر یہ سیٹ جیتنا چاہتی تھی۔ اس انتخابی مہم میں وزیراعلیٰ اور دو وزیروں کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں۔ مذکورہ وزرا تو مستقل طور پر ڈگر کالونی میں ایک چھوٹے سے کوارٹر میں مقیم تھے۔ وہ صبح اپنے مشن پر نکلتے اور رات گئے واپس آتے۔ وزیراعلیٰ بھی دوسرے تیسرے دن چکر لگاتے۔ بونیر کے عوام کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے موقعوں پر ذاتی مفادات اور ذاتی سیاسی اصولوں کی بجائے عوامی فلاح و بہبود کے حصول کے لیے متحد ہو جاتے ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انھوں نے کروڑوں روپیہ کے منصوبے نہ صرف منظور کروائے بلکہ ان پر کام بھی شروع کروا دیا۔ اس سلسلہ میں علاقہ کے بہت سے دیرینہ مسائل حل ہوگئے۔ سب سے اہم اور رفاہِ عامہ کے جن منصوبوں پر کام کا آغاز ہوا، وہ کلیاڑی اور خدوخیل طوطالئی میں تین بڑے پلوں کی تعمیر تھا جن کی تکمیل سے ہزاروں لوگوں کی دیرینہ مشکلات کا خاتمہ ہوا۔
وزیراعلیٰ نے نہ صرف بذات خود ان سکیموں کی سنگ بنیاد رکھی بلکہ وقتاً فوقتاً دورانِ تعمیر معائنہ بھی کرتے رہے۔ اور ہم پر سب سے زیادہ دباؤ ان تین پلوں کی بروقت تکمیل کے لیے ڈالتے رہے۔ میرے سیکشن میں صرف کلیاڑی والا پل تھا۔ میں نے دن دیکھا نہ رات، کام کی رفتار میں سوائے موسمی مشکلات کے، خلل نہ آنے دیا۔ ہماری محنت رنگ لائی اور مذکورہ پل مقررہ میعاد سے پانچ مہینے پہلے ہی مکمل ہوگیا۔ وزیراعلیٰ کو اطلاع دے کر اُن سے افتتاحی تقریب کے لیے درخواست کی گئی۔ وزیراعلیٰ صاحب بہت خوش ہوگئے اور مقررہ دن بذریعہ ہیلی کاپٹر افتتاحی رسم کی ادائیگی کے لیے تشریف لائے۔ ’’بدست مبارک‘‘ والی تختی لگائی گئی تھی اور اُس پر پارٹی کا سہ رنگی جھنڈا پردہ کے طور پر لٹکایا گیا تھا۔ اس افتتاحی تقریب میں فواکہ کا ٹھیکہ غیر سرکاری طور پر پشاور کے ایک مشہور کیٹرنگ سروس کمپنی کو ایک لاکھ سے زائد میں دیا گیا تھا جو پل بنانے والی کمپنی نے ادا کیے تھے۔ افتتاح کے بعد وزیراعلیٰ نے ایس ای انجینئر الحاج انعام اللہ خان کو اپنے پاس بلا کر اُن کو پل کی جلد از جلد تکمیل پر مبارک باد دی اور فرمایا کہ ہمیں ایسے ہی قابل انجینئر درکار ہیں جو اس صوبہ کی ترقی میں ہمارا ساتھ دیں۔ ساتھ ہی ہدایت کی کہ طوطالئی خدوخیل والے دونوں پل بھی جلد مکمل کروا دیے جائیں۔ اس کے بعد جیالوں نے چائے کی میزوں کا جو حشر کیا اور جس طرح چرغوں پر ٹوٹ پڑے، وزیراعلیٰ حیرت زدہ ہوکر اُن کے کرتوت دیکھتے رہے۔
قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ جب طوطالئی والے پل مکمل ہوگئے اور اُن کی افتتاح کے دن اور وقت کا تعین ہوگیا، تو اس سے پہلے والی شام کو وہی کیٹرنگ کمپنی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آپہنچی۔ کھانے پینے کی اشیا پہلے آنے والے پل کے درمیان رکھ کر وہ شامیانے وغیرہ لگانے لگے، تو ایک قیامت خیز اطلاع آگئی کہ حکومت ختم کردی گئی ہے اور وزیراعلیٰ صاحب اب ’’سابق‘‘ ہوگئے ہیں۔ ہمارے افسران کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ کیٹرنگ کمپنی نے تو اپنا سامان دوبارہ باندھ کر ٹرکوں میں ڈالنا شروع کیا۔ کھانے والی اشیا کو یہ کہ کر واپس لینے سے انکار کیا کہ یہ ہمارے کام کی نہیں۔ سخت گرمی ہے اور ان کے خراب ہونے میں چند گھنٹے ہی باقی ہوں گے۔ ہمیں پوری ادائیگی کر دیں۔ اب جو پل بنانے والے ٹھیکہ دار تھے، وہ ایبٹ آباد کے رہنے والے تھے اور کسی وزیر کے “فرنٹ مین” کے طورپر مشہور تھے۔ اُس نے ایک بھی روپیہ دینے سے انکار کر دیا۔ ناچار محکمہ والوں نے خود ہی آپس میں چندہ کرکے کیٹرنگ کمپنی کو ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ ادا کر دیا۔ سب سے بڑھ کر زیادتی میرے ساتھ کی گئی کہ مذکورہ پل میرے سیکشن میں نہیں تھے پھر بھی مجھ کو تاوان میں حصہ برداشت کرنا پڑا۔
یہ ہیں ’’بدست مبارک‘‘ کے اندرونی حقائق۔