برما میں مظلوم مسلمانوں کی پکار | محمد آصف تبسمؔ
برمی مسلمانوں پہ ظلم و ستم کی انتہا ہو چکی مگر امت مسلمہ کی خاموشی نہ جانے لب کھولنے کی کیا قیمت مانگتی ہے ، بیس ہزار سے زائد روہنگیائی اپنے لہو سے لاچار اور بے حس مسلمانوں کی تاریخ رقم کر چکے ہیں،انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار ،عالمی تنظیمیں اور مسلم ممالک کی بے حسی ایک سوالیہ نشان ہے ؟یوں تو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا پرچار کرنے والی تنظیموں نے آسمان سر پہ اٹھا رکھاہے لیکن برما میں مسلمان بھائیوں پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کردیں اوران کی تصویر وں نے دنیا کو رلایالیکن برما کی کوئی نہیں کر تا۔درندہ صفت بھشکوں نے بلاتمیز مسلمان بچوں ،عورتوں اور جوانوں کا قتل عام جاری کر رکھا ہے۔ ان پر زمین تنگ کر دی گئی ہے مرتا ہوا برمی مسلمان کسی سے پانی تک نہیں مانگ سکتا۔وہ کیا جانے ،کہاں ہے انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم۔وہاں کا ہر مسلمان بدھوں کے ظلم کا نشانہ بن کر سسک سسک کر مرنے کے لیے پیدا ہوا۔ماں کی ممتا کے آرزو مند معصوموں کو چیلیں کھاتی ہیں۔کتے نوچتے ہیں اور عورتیں بد حواسوں کی ہوس کا نشانہ بننے کے بعد ذبح ہوجاتی ہیں۔
برما کے نہتے مسلمانوں پر قیامت صغریٰ ٹوٹ رہی ہے۔ 2012سے اب تک ان کی پریشانیوں کا کوئی سدباب نہ ہوسکا۔ نہ تو برماکی سرکار اپنے ظلم سے رک رہی ہے اور نہ عالمی ادارے کو ئی موثر اقدام کر پارہے ہیں۔برما میں روہنگیا ئی مسلمانوں کا یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔بلکہ بات اس وقت بگڑی جب 1982میں جنرل نی ون کی ایک فوجی حکومت نے نیا شہریت کا قانون پاس کیا۔جس کے تحت روہنگیا ئی مسلمانوں کی شہریت رد کردی گئی اور اس قانون کی رو سے لاکھوں روہنگیا ئی مسلمانوں سے شہری حقوق سلب کر کے ان کو ملک کے اندر ہی کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا۔جس کے نتیجے میں تقریباً ایک لاکھ روہنگیا ئی مسلمانون کو اپنا گھر بار چھوڑ کے کسی نہ کسی کیمپ میں پناہ گزیں ہونا پڑا اور برمائی فوج نے انہیں روزگار حاصل کرنے کی خاطر بھی کیمپوں سے باہر نہیں نکلنے دیا۔پوری دنیا نے اگرچہ تسلیم کر لیا ہے کہ برما میں مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کرنے کا سلسلہ تسلسل سے جاری ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ عالمی برادری ابھی تک سو رہی ہے اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ اسلامی ممالک کو بھی برما کے مظلوم مسلمان بھائیوں کی چیخیں سنائی نہیں دے پا رہیں اور مسلم ممالک کے حکمران اپنے اقتدار کے نشے میں ہیں ۔حال ہی میں برما میں مسلمانوں کے 600سے زائد گھروں اور جھونپڑیوں کو آگ لگا کر مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا اور جو بچ گئے ان کے جسموں کو بڑی بے رحمی سے کاٹ کر پھینک دیا گیا جن کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے ۔اتنا سب کچھ ہو رہا ہے مگر افسوس ! انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سب سے بڑی انسانی ہمدردیوں کی عدالت اقوام متحدہ بھی اس معاملے پر خاموش ہے وہ بھی کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی۔ویسے تو کسی غیر مسلم کو کانٹا بھی چُب جائے تو عالمی برادری جاگ اٹھتی ہے اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کرتی ہے لیکن جہاں مسلمانوں کا سوا ل ہو وہاں عالمی برادری چُپ رہ کر تماشا دیکھتی رہتی ہے۔برما کی آبادی 6کروڑ کے قریب ہے، 50فیصد بدھ مت کے ماننے والے ہیں جبکہ مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ ان مسلمانوں کو روہنگیا مسلمان کہا جاتا ہے۔ برما میں ایک کروڑ کے قریب مسلمان رہتے ہیں (برمی حکومت، مغربی میڈیا برمی مسلمانوں کی صحیح تعداد نہیں بتاتے) لیکن برما کی فوج اور حکومت ان کا قتل عام کر رہی ہے۔ تشدد پسند مسلمانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ خنزیر کا گوشت کھائیں، شراب پیءں یا مرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور برما کے مسلمان موت کو ایسی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔
مسلم کش فسادات اس ملک میں گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں۔مسلمان اپنے علاقے کے اصلی باشندے ہیں لیکن برما کی حکومت نے اعلان کیا کہ یہ مسلمان برما کے باشندے شمار نہیں کئے جائیں گے۔ برما کے صدرکے مطابق مسلمان ہمارے ملک کے شہری نہیں ہیں اس لیے ان کے تحفظ کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عام شہروں سے نکل کر مہاجر کیمپوں میں چلے جائیں یا ملک چھوڑ دیں۔ روہنگیا شہر میں موجود مسلمان ہمارے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ان کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ اگر انہیں حملوں کا سامنا نہیں کرنا تو وہ ملک چھوڑ دیں کیوں کہ ہم انہیں اپنا شہری نہیں مانتے ہیں برما کے بدھ بھکشو گاڑیوں میں بیٹھ کر پیدل چلنے والے یا بھاگنے والے یا دیہی علاقوں میں بسنے والے بچوں اور بڑوں کو کچلتے ہیں ان کے گھروں کو مسمار کرتے ہیں اور ان کے کھیتیوں کو آگ لگاتے ہیں۔ روہنگیا کے 40 ہزار بچوں کا نام درج نہیں کیا جا سکتا ہے ان پر ایک پابندی یہ ہے کہ دو سے زائد بچے نہ ہوں۔ ان شرائط کی خلاف ورزی ایسا جرم ہے جس کی سزا دس سال قید با مشقت ہے۔ 1982ء میں جاری شدہ میانمار حکومت کے قانون کے مطابق روہنگیا کے تمام بچے خواان کا نام نوٹ کیا گیا ہو یا نہ کیا ہو برمی نہیں سمجھے جائیں گے، انہیں غذا، خوردونوش، صحت کی سہولتیں اور تعلیم کے مواقع فراہم نہیں ہوں گے اور انہیں فوج کے مفاد والے مشکل کاموں میں استعمال کیا جائے گا۔ میانمار کے مسلمانوں کے قتل عام کی دلخراش تصاویر شائع ہونے پر عالم اسلام تڑپ اٹھا۔ مسلمانوں کے اس وسیع قتل عام پر کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ دنیا کے اس خطے میں مسلمانوں کی نشل کشی ہو رہی ہے۔ اس صورت حال میں بین الاقوامی ادارے اور انسانی حقوق کے دعویدار اپنی شرمناک خاموشی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میانمر میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کا عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہئیے ، کئی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی میانمر میں ہونے والے ظلم پر خاموش ہیں ، ان انسانی حقوق کو اتنا بے حس نہیں ہونا چاہئیے اور روہنگیا مسلمانوں پر ظلم روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے ، میانمر کی سربراہ آنگ سان سوچی کو عالمی امن کا نوبل انعام بھی ملا ہوا ہے لیکن افسوس کہ انہیں اپنے ملک میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد نظر نہیں آ رہا ، آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہاہے ، آنگ سان سوچی کو رہنگیا مسلمانوں پر ظلم روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔ہماری ان عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل ہے کہ وہ برمی مسلمانوں کو انسانیت کے ناطے ،انسان سمجھتے ہوئے ان پر ظلم بندکروانے پر اپنا کردارادا کریں۔
نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔