آج تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ ریاستِ سوات کا پاکستان میں ادغام کا عمل بہت بھونڈے انداز میں کیا گیا۔ نہ سوات کے عوام کے بنیادی حقوق کے بارے میں طریقہ کار وضع کیا گیا، نہ ان کے لیے کسی متعین مدت تک خصوصی مراعات کا فیصلہ ہوا۔ جس طرح ایک نامعقول شخصیت کے حامل یحییٰ خان کا اعلان، عجلت کا مظہر تھا، غیر واضح اور ابہام سے پُر ایک نیا نظام سواتی عوام پر مسلط کیا گیا۔ اور سوات کے لوگ بھیڑ بکریوں کی مانند ایک طوق سے نکل کر ایک مکمل طور پر نامانوس سسٹم کا طوق پہننے پر مجبور کردیئے گئے۔ اور اس کے بعد سواتیوں کو کئی اذیت ناک مراحل سے گزارا گیا۔ یہ احساس مجھے کیوں ہوا؟ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نیشنل ہائے وے اتھارٹی نے سعودی حکومت کی خیراتی امداد سے ’’این 95‘‘ یعنی جی ٹی روڈ پر چکدرہ سے فتح پور تک Rehabilitation کا کام شرع کیا ہے۔ اس میں سڑک کی توسیع بھی شامل ہے۔ یہ ایک خوش آئند اور بڑھتی ہوئی ٹریفک کے لیے بہت اہم قدم ہے اور ہم سب اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن یہ منصوبہ جہاں وقت کی اہم ضرورت ہے، وہاں سواتی عوام کے لیے باعثِ زحمت بھی بن رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ناقص منصوبہ بندی اور عجلت میں اُٹھائے گئے اقدامات ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ جو عوام کے سروں پر ناگہانی قیامت کی صورت میں ٹوٹ پڑا ہے، وہ توسیع میں حائل آبادیوں کا مسمار کرنا ہے۔ ریاست کے دور میں جی ٹی روڈ پر آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ ادغام کے بعد یہ عمل تیزی سے بڑھنے لگا اور اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ آپ لنڈاکے سے لے کر مینگورہ تک سفر کریں، تو آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ آپ ایک ہی بازار سے گزر رہے ہیں جو شیطان کی آنت کی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ریاست کے دور میں سڑک کے کنارے تعمیرات کے قوانین وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتے گئے۔ ادغام کے بعد تو کئی سال تک’’اسٹیٹس کو‘‘ رہا۔ اُس دور میں بعد میں ساری تعمیرات میں قانون سے تجاوز کردیا گیا، مجھے یاد ہے کہ ان دنوں جب ہم انکروچمنٹ کے مقدمات عدالت میں لے جاتے، تو مخالف فریق کا وکیل سوال کرتا کہ کیا سوات میں ہائے وے ایکٹ نافذ ہے؟ تو لا ڈیپارٹمنٹ نے کئی مراحل گزرنے کے بعد اس بارے میں نوٹی فیکیشن جاری کیا ہوگا، کیوں کہ میری ملازمت کے دور میں مجھے اس قسم کی دستاویز دیکھنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔ اسی دور میں اکثر مقامات پر تجاوزات ہونے کا احتمال موجود ہے اور ایسا ہوا ہوگا۔ لیکن بعض قانون پسند لوگوں نے صحیح طور پر اپنے مکانات یا دوکانات تعمیر کروائے ہیں۔ یعنی سڑک کے بلیک ٹاپ حصے کے درمیان سے تینتیس فٹ کے فاصلے پر کام کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اسی سڑک پر کئے گئے کام کے دوران میں بلیک ٹاپ حصے کی چوڑائی میں اضافہ ہوا، تو پہلے والی سنٹر لائن آگے پیچھے ہوگئی جس کی وجہ سے قانونی آبادیوں کے مالکان کو بھی غیر پسندیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم متعلقہ حکام سے دست بستہ درخواست کرتے ہیں کہ جن مالکان کی آبادیوں اور سنٹر لائن میں دو تین فٹ کا فرق آگیا ہے، اُن کو رعایت ملنی چاہئے۔ باقی آبادیوں کے بارے میں بھی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ اُن کے نقصان کی تلافی کی جائے۔ سڑک کے کنارے کی قیمتی زمین تو آپ مفت میں غضب کررہے ہیں، تو کم از کم آبادی اور گرانے کا معاوضہ تو ادا کردیا جائے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بے بس اور مجبور کی بددعائیں ضرور رنگ لاتی ہیں۔ اس کا وبال ضرور پڑسکتا ہے۔ افراد پر بھی اور اداروں پر بھی۔ اگر ادغام کے وقت ان ساری باتوں کا تعین کیا جاتا، تو آج ہزاروں لاکھوں لوگوں کا اربوں روپیہ کا نقصان نہ ہوتا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ محکمہ مال کے ریکارڈ میں حکومت کی ملکیت سڑک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک محدود ہے۔ دوسری بات غور طلب ہے کہ “ROW” ہر اُس سڑک کی ہوتی ہے جو سرکار تعمیر کرتی ہے۔ یہ سڑک جس کی زمین عوام نے بادشاہ صاحب کو مفت فراہم کی تھی بلکہ ابتدائی سالوں میں عوام ہی نے بنائی تھی، نہ صرف یہ بلکہ سوات کی تمام سڑکوں کی زمین عوام سے مفت لی گئی تھی۔ پاکستان ایک بڑی سرکار ہے اور اسے سواتی عوام کے ساتھ خصوصی رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان بے چاروں نے بڑے دُکھ اُٹھائے ہیں۔ ان میں اب مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رہی۔
نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔