سوات (زما سوات ڈاٹ کام ، تازہ ترین۔ 20 اپریل2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان نے جمعرات کے روز پشاور کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ وزراء ،ممبران اسمبلی ،سمیت دیگر اعلیٰ عوامی ممبران سے سیکورٹی واپس لی جائے ، اس کے بعد انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا کی ہدایات پر سوات میں بھی مختلف شخصیات کی سیکیورٹی پر تعینات 364پولیس اہلکار لائن حاضر کردئے گئے ، میڈیا نے جب مختلف ممبران اسمبلی اور ناظمین سے رابطہ کیا تو اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم تو عوامی خدمت پر معمور ہیں اور سوات جیسے حساس علاقہ میں نقل و حرکت کرتے ہوئے سیکورٹی انتہائی ضروری ہے اگر حکومت ہمیں سیکورٹی نہیں دے رہی تو پھر ہماری حفاظت کا کون ذمہ دار ہوگا ، ادھر بعض عوامی حلقوں کے جانب سے اس فیصلے پر کافی حد تک خوشی پائی گئی ہے کیونکہ سوات میں درجنوں پولیس اہلکار بعض ایسی شخصیات کو دی گئی ہے کہ ان کو سیکورٹی کی ضرورت ہی نہیں ہے اور عوامی حلقوں کے مطابق ان پولیس اہلکاروں سے وہ شخصیات اپنے ذاتی کام لے رہے ہیں ،
سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی خیبر پختونخوا سے مکالمے کے دوران کہا کہ ہم نے آپ کی بہتے تعریف سنی ہے، دہشتگردی میں آپ کا بہت ذاتی نقصان ہوا ہے۔ غیر متعلقہ لوگوں کے پاس سیکیورٹی کے نام پر کتنی پولیس فورس ہے؟
آئی جی خیبر پختونخوا نے بتایا کہ پورے خیبر پختونخواہ کے 3 ہزار کے قریب اہلکار غیر متعلقہ افراد کی سیکیورٹی پر تعینات ہیں، 900 اہلکاروں کو واپس بلالیا گیا ہے جب کہ دیگر کو مرحلہ وار واپس بلارہے ہیں، اس میں ایک ہفتہ لگے گا۔ چیف جسٹس نے آئی جی خیبرپختونخوا کو غیر متعلقہ افراد آج رات تک سیکیورٹی واپس لینے کا حکم دیا۔ جس پر صلاح الدین خان نے حکم پر فوری عمل کی یقین دہانی کرادی۔