سوات(زما سوات ڈاٹ کام:17اپریل2018) سوات میں سکولوں کے طلبا کے لیے سب سے بڑے دو روزہ سائنس میلے کا آغاز منگل کے روزکر دیا گیا ، میلے کا مقصد علاقہ کے بچوں میں سائنس اور نئی تحقیق کے جذبے کو جلا بخشنا اور سکولوں میں میسر بہتر تعلیمی مواقعوں کو فروغ دینا ہے۔ میلے کا انعقاد ادھیانہ، سوات ایجوکیشن ڈیپارٹنمنٹ اور پاکستان الائنس فار میتھ اینڈ سائنس کے تعاون سے کیا گیا جس کا افتتاح کمشنر مالاکنڈ ڈویژن سید ظہیر الاسلام، ڈپٹٰی کمشنر شاہد محمود، اسسسٹنٹ کمشنر شہاب خان، ناظم محمد علی شاہ اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نواب علی نے کیا۔
میلے کے پہلے روز شائقین کی ایک بڑی تعداد نے میلے کا رخ کیا۔ ڈسٹرکٹ سوات سے تقریبا 130 سے زائد سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے 5000 لڑکوں اور 1500 لڑکیوں نے میلے میں لگے سٹالوں کا دورہ کیا۔ اساتذہ، بزنس مین، سائنسی ماہرین، سرکاری افسران اور ایم پی اے فضل حکیم نے بھی میلہ میں شرکت کی اور طلبا کے تیار کردہ 100 سے زائد سائنسی ماڈلز کی نمائش دیکھی۔ اس نمائش میں طلبا نے جہاں سائنس اور ٹٰیکنالوجی کے لیے اپنی لگن کا اظہار کیا وہیں جدید سوچ بھی متعارف کروائی۔
شمولیتی سیشنز اور براہ راست تجربات، جن میں سے کچھ میں روبوٹکس، ہائیڈرولکس، الیکٹرک سرکٹ اور آسان ریاضی فہم گائیڈ شامل تھے وہ مقامی تعلیمی اداروں کے طلبا اور ملک بھر سے آئی چھے سائنسی تنظیموں لرن و بوٹس، سٹیمر، نیومیریکا، پاکستان سائنس کلب، اے زیڈ کارپس اور سبق کی جانب سے جانب سے پیش کیے گئے۔ مقامی سائنس و ریاضی کی تنظیموں نے بھی اپنے کام کی نمائش کی اور بتایا کہ سکولوں میں نصاب اور عملی پڑھائی کے درمیان موجود دوری کو کس طرح سے ختم کیا جا سکتا ہے۔
میلے کے منتظمین کے مطابق سوات جو کہ 09-2007 سے انتہا پسندی اور تشدد کے نشانے پر تھا اور یہاں لڑکیوں کے لیے تعلیم کے مواقع سکڑ گئے تھے اب یہاں حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ لڑکے اور لڑکیاں اب دوبارہ سکولوں میں جا رہے ہیں اگرچہ مخصوص چیلنجز کا تاحال سامنا ہے جن میں سے ایک برے تعلیمی نتائج ہیں کیونکہ جماعت پنجم کے 40.2 فیصد طلبا اردو و پشتو میں کہانی نہیں پڑھ سکتے ہیں جبکہ جماعت پنجم کے صرف 44 فیصد طلبا ہی دو ہندسی تقسیم کر سکتے ہیں۔
معیار کو مدنظر رکھ کر اٹھائے گئے ایسے اقدامات طلبا کو سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں وہ اعلی معیاری تعلیم کو حاصل اور اپنی شخصیت کا حصہ بنا سکیں۔ اس کے علاوہ کمرہ جماعت میں ریاضی اور سائنس پر دی گئی زیادہ توجہ خصوصا سوات شہر اور عموما صوبہ خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر میسر مواقعوں سے فائدہ اٹھانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
نیشنل اکیڈیمی آف ینگ سائنٹسٹ کی زیر سرپرستی پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ 1036 طلبا نے بیک وقت سٹرابیری سے ڈی این نکال کر قومی ریکارڈ قائم کیا۔ اس کے علاوہ 955 طلبا نے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر ڈی این اے بھی تشکیل دیا۔ یہ ریکارڈ پاکستان بک آف ریکارڈز میں درج کیے جائیں گے۔