وادی کاغان و ناران کو الوداع کہتے ہوئے بٹاکنڈی جلکھنڈ سے گزرتے ہوئےوسیع و عریض لولو سر جھیل سے سامنا ہے جو محل وقوع کے لحاظ سے اپنی جانب کھینچتی ہے لیکن جب تصور اور ذہن میں منی مرگ منزل ہو تو اس پر رکنے کا خیال بھی محال ہے با با سر ٹاپ پر پہنچنے پر بلندی سر کرنے کا گماں ہوتا ہے موسم بدلا ہوا ہوتا ہے پھر ڈھلوانوں اور بل کھاتے راستوں سے ہوتے ہوئے چلاس سے گزرتے ہوئے رائی کوٹ پل پر پہاڑوں کو زیر کرنے کے احساس لئےیہ فیصلہ مشکل پیدا کرتا ہے کہ شنگریلاجایا جائے یا منی مرگ فیصلہ اٹل منی مرگ کاہو تو ۔وسم کی شدت ہی ہائل ہو سکتی ہے یہاں سے جنگلوٹ تک راستہ انتہائی دشوار گزار و تنگ اور خطرناک ہے بازوباہر نکال کر پہاڑ چھویاجاسکتا ہےجنگلوٹ پہنچنے پرایک جانب سکردو ایک جانب استورایک راستہ گلگت ھنزہ کی جانب جاتاہے جبکہ استور پہنچنے پرDC آفس سےہوٹلز کے ریٹ ومعیار کی معلومات کی جاسکتی ہیں اپنی گاڑی کی بجائے جیپ کر لی جائے تو بہتر ہے راستہ مشکل ہےاستور سے نکلنے کے بعدراما میڈوز کے مرغزار بانہیں پھیلائے خوش آمدید کہتے ہیں چلم چوکی فوجی اجازت نامہ ضروری ہےجو پہلے کی نسبت آسان ہے یہاں کیونکہ بارڈر ایریا ہےیہاں سے برزل ٹاپ 4100میٹر بلندعبورکرتے ہیں خوبصورت سر سبز وادی آتی ہے ندی کی گنگناہٹ دل کو چھو رہی ہےبرف پوش چوٹی راستہ دوطرفہ قرمضی اودے چمکدار پھولوں کی چادربرزل ٹاپ میں جون جولائی میں بھی برفباری متوقع جو بابوسر ٹاپ سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ سانس لینے میں قدردقت ہوتی ہے یہاں برزل جھیل جو چوٹی کی ارد گرد کی برفانی پانی کی چھوٹی جھیل ہے آپ کو فوجی چیک پوسٹ و بٹالین ہیڈ کواٹر بھی ہےکارگل کی وجہ سے فوجیں ہمہ وقت چست و چابند رہتی ہیں آگےاستور ہےجوکشمیر وادی نیلم کا ایک گاؤں جو گلگت سے 190کلو میٹرسطح سمندر 2845 میٹر بلند جہاں اگلوسرد موسم میں نظر آتے ہیں جنوری سرد ترین ہوتا ھے شینا بولی جاتی ہے لینڈ سلائڈنگ ہوتی ہےدیودار کے گھنے درخت فکک چھورہے ہیں گھنے درختوں کی وجہ روشنی معدوم ہے ٹھنڈی ہوا میں سانس لینا دشوار کام یاک چرتے دیکھے جاسکتے ہیں یہاں کے سحرسے نکلتے ہی رینبو لیک اچھلتی کودتی ٹراؤٹ کے ساتھ موجود یہ تاب نما قدرے چھوٹی جھیل اپناایسا سحر چھوڑتی ہے کہ تمام راستے کی تھکاوٹ اپنے اندر سمو کر سیاح کو ایسے ترو تازہ کرتی ہے جیسے شبنم کے قطرے گلاب کو کھلائیں جب سورج کی کرنیں بادل کی اوٹ سے جھانکتی ہیں تو ماحول پر قوس قزح کی اوڑھنی کا گماں ہوتا ہے یہاں کھانا بھی مل جاتا ہےپکوڑے گرما گرم سمسے بھیدل پر فضا مقام میں جس فرحت کو محسوس کرتاہے بیان سے باہر ہے یہاں کے لوگ زیادہ تر دوزگار کے سلسلے میں ملک کے دیگر علاقہ جات چلے جاتے ہیں رہ جانے والوں کی معیشت کا انحصار زراعت آلو کی فصل اور بھیڑوں اور مچھلی ٹراؤٹ وغیرہ اور پائی جانے والی جڑی بوٹیوں پر ہے زندگی سہل نہ ہے 8ماہ برف رہنےسے اور سہولیات۔نہ ہونے سےزندگی اجیرن ہے سیاح اس صاف اور پرفضا مقام کا رخ کر زیادہ لطف اندوز جو سکتے ہیں اورصفائی کا خیال رکھ کے اپنی جنت کو دوزخ میں تبدیل ہونے سے روک سکتے ہیں سفر یہاں تمام نہیں ہوتا ڈومیل وادی کی جھیلیں سرحدی علاقہ بھی قابل دید ہے وطن عزیز کو گھومنے کے لیئےدیار غیر سے سیاحوں کو متعارف کرانے کے لیئے بھرپور محنت کی ضرورت ہےجیسا نیشنل ٹورزم پاکستان کی جانب سے سیاحوں کی سہولت کے لیے پہلی ویب پورٹل متعارف کروانے کا اعلان ہوا ہے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے۔جھاں ممکن ہو حکومت ممدومعاون ثابت ہو کر اس عمل کی حوصلہ افزائی کرے۔