سیاسی جماعتوں میں جمہوری کھیل تماشا

 سیاسی جماعتوں کے اندر “جمہوریت” ایک ایسا کھیل اور تماشا ہے جس کا کوئی اصول متعین نہیں اس کھیل کے کھلاڑیوں کیلئے کسی قسم کی تربیت ضروری نہیں یہ جمہوریت ایک ایسا گھوڑا ہے جس کے مالک کا کوئی پتہ نہیں کوئی بھی اس پر سوار ہو کر اپنی مرضی کے مطابق سواری کر سکتا ہے۔سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی نہ کوئی تعریف ہے نہ اصول اور نہ کوئی طریقہ کار بس ہر پارٹی سربراہ و پارٹی مالک کا اپنا تعریف ہے اپنے اصول اور اپنا طریقہ کار۔

جمہوریت کے نام پر جو کھیل اور تماشا سیاسی جماعتوں کے اندر جاری ہے وہ آمریت کی ایک بدترین شکل ہے اور اس آمریت کے طرز عمل کا ہر جماعت اور جماعت کے سربراہان کا اپنا اپنا طریقہ واردات ہے۔ جو پارٹی جتنا بڑا جمہوری ہونے کی دعویدار ہے اتنا ہی اس میں آمریت ذیادہ ہے ۔

عام طور پر سیاسی جماعتوں کے عہدوں اور مناصب کی تقسیم میں اہلیت نہیں بلکہ اثر رسوخ،مال و دولت، تعلقات اور خوشامد کا عمل دخل ذیادہ ہوتا ہے۔ کارکنان کی رائے اور ووٹ کا ظاہری شکل بنایا تو جاتا ہے لیکن اس رائے پر اثر انداز ہونے اور کسی خاص سمت میں رائے کی اکثریت کو موڑنے کے لیے بھی سربراہان یا خاص اشرافیہ پیشگی پیش بندی کرتے ہیں اور نتیجتا رائے کی اکثریت اس سمت میں اجاتی ہے جو پارٹی سربراہان اور مالکان چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ من مانے فیصلے کرنے یا کارکنان کی رائے کے خلاف فیصلے کرنے کے لیے صوابدیدی اختیارات کے نام پر پارٹی دستور میں پارٹی سربراہ یا مالک کو جو اختیار دیا ہوتا ہے اس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ صوابدیدی اختیار ایک ایسا کارگر نسخہ ہے جس کو استعمال کرکے من مانے فیصلے بآسانی مسلط کیے جاسکتے ہیں۔

پارٹیوں میں اس قسم کے رواج اور رویوں کی وجہ سے کارکنان میں باہمی اور قیادت کے مابین مایوسی،گروہ بندی، عدم اطمینان، عدم یکسوئی، ذاتی رنجشیں اور انارکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور عملا پارٹیوں کی تباہی کے اصل اسباب یہی آمریت ذدہ فیصلے ہوا کرتے ہیں ان فیصلوں کے خلاف جہاں کہیں کارکنان کا رد عمل آجائے تو سربراہان اور پارٹی مالکان کے ساتھ صوابدیدی اختیارات کے نام پر جو ٹپہ ہوتا ہے اس کو استعمال کرکے بڑے “جمہوری” انداز میں اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں جو کہ “دستور” کے عین مطابق ہوتا ہے پھر کارکنان یا تو اس آمریت ذدہ فیصلے کو مان لیں گے اور یا پھر بے چارگی کے ساتھ مایوس ہو کر کنارہ کش ہونگے۔

شورایئت،غور و فکر، رائے عامہ سے آگاہی، میدان کار کے مشاہدات اور تقاضوں سے حقیقتا بیگانگی میں اکثریت پارٹیاں شامل ہیں۔

فیصلوں کی عوامی پذیرائی اور قبولیت کا اندازہ لگانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ پارٹی قیادت عوامی میدان میں جا کر ہر پہلو سے جائزہ لے رائے عامہ کو سمجھے اور اس کے مطابق فیصلے کرے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے سربراہان کے “خاص” نمائندے جن کے ساتھ تعلق اور روابط ان نمائندوں کے اثر رسوخ، مال و دولت، ذاتی تعلقات و مراسم اور خوشامد کی بنیاد پر ہوتا ہے ان کے کہنے اور ان کے پیش کردہ تصویر کے مطابق اپنی رائے قائم کر کے فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں۔

یہ تمام عوامل ہیں جن کی وجہ سے موجودہ دور کے اکثریت سیاسی جماعتوں کے کارکنان میں عدم دلچسپی،عدم یکسوئی، عدم اطمینان،اختلافات اور انارکی کی فضا قائم ہے اہلیت قابلیت کی کوئی قدر نہیں اور عوامی پذیرائی اور قبولیت کا پارٹی قیادت کو کوئی اندازہ نہیں 

پاکستانجمہوریتسیاست