عہد رفتہ کے مسلمان اور حال کا برما | محمد نظیر خان ساگر
مسلم اُمہ کے بارے میں یہ مثال دردہانِ خلق عام تھی کہ مسلم قوم ایک جسم کی طرح ہے۔ کیوں کہ جسم کے ایک عضو کو ٹھیس پہنچے، تو پورا جسم بے چین ہوتا ہے۔ یہ مثال اُس زمانے تک توسچ ثابت ہوتی رہی جب ایک مسلمان بہن کی فریاد پر محمد بن قاسم شاہین کی طرح ہندوستان پر جھپٹ پڑے۔ محمودِ غزنوی نے سومنات کو گھوڑوں کے پیروں تلے روند ڈالا اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے قبلۂ اول کو فتح کرنے کے لیے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس سے پہلے طارق بن زیاد اُندلس کے محاذ پر دریا کے کنارے شہادت کی نیت سے اپنے سفینے جلانے میں منہمک نظر آئے۔ یہ سلسلہ تب شروع ہوا تھا جب حجاز سے بدوؤں کا مٹھی بھر لشکر ایک طوفان کی شکل میں اُٹھا اور دنیا پر چھا گیا جس کا سپہ سالار ولید کا بیٹا خالدؓ تھا، جس نے روم و فارس پر ایسی ضربیں لگائیں کہ قیصر و کسریٰ جو ہار ماننے سے نا آشنا تھے، گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔ اور اس طرح بتان رنگ وخوں کو توڑ کر مسلمان ایک پرچم تلے جمع ہوگئے۔ اُس زمانے میں کسی بھی مسلمان پر ہاتھ ڈالنا ہاتھی کے منہ سے گنا کھینچنے کے مترادف تھا۔لیکن پھر جب اس اُمت میں فرقے بننے شروع ہوگئے، تو مسلمان عروج سے زوال کی طرف سفر کرنے لگا اور پھر ان فرقوں کا آپس میں اختلاف جلتی پر تیل کا کام کرنے لگا اور یوں مسلمان آسمان سے زمین پر آلگا جس پر اقبال کچھ اس طرح نوحہ کناں تھے
اسی کو کب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا
کہتے ہیں کہ جب گجر خوار ہوجائے، تو اپنے آبا و اجداد کی کہانیاں سناتا ہے۔ شاید ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے، لیکن مسلمانوں کو اُن کا ماضی یاد دلانا بھی بہت ضروری ہے کہ اقبال بھی اس جدوجہد میں خاک ہوگئے لیکن ناکام رہے، وہ مسلمانوں کے لیے خودی کا فلسفہ لائے اور بانگ درا بجاتے رہے لیکن مسلمان خواب غفلت سے بیدار نہ ہوسکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہمارے ایک عضو کو کچلا جارہا ہے اور جسم کو احساس تک نہیں ہورہا۔ جسم کے اس عضو سے میرا مطلب برما ہے۔ اُس پہ قیامت یہ کہ اُس عضو کو کچلنے والے وہ لوگ ہیں جن کا ماضی ہی نہیں۔ جنھوں نے ماضی میں خوفِ جنگ و جدل سے اپنے مذہب میں قتل و غارت اور ہر قسم کی جنگ چاہے وہ دفاعی جنگ ہی کیوں نہ ہو حرام قرار دی۔ آج وہ اُمت محمدﷺ کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں۔ ماضی کے ڈرپوک لوگوں نے ہاتھی کے منہ سے گنا کھینچ کر یہ ثابت کردیا ہے کہ مسلمانوں کا خون سفید ہوچکا ہے۔ اسلامی ممالک کے حکم ران اقوام متحدہ سے یہ سوال بھی نہیں پوچھ سکتے کہ غیر مسلموں پر آنچ آتے ہی اقوام متحدہ حرکت میں آجاتی ہے، تو مسلمان کا خون اتنا سستا کیوں ہے؟ جس کو بہانے کے لیے بزدل بدھسٹ بھی شیر بن گئے ہیں اور جب اس میں برما کی حکومت خود ملوث ہے، تو پھر دوسری دہشت گرد تنظیموں کے کھاتے میں یہ قتل وغارت کیوں ڈالا جاتا ہے؟ برما کے مسلمان سوالیہ نظروں سے اسلامی دنیا کی طرف دیکھتے ہیں کہ کیا ہمارے معصوم بچے جو کچلے جا رہے ہیں آپ کے بچے نہیں؟ کیا ابن قاسم کی روح کسی اسلامی حکم ران میں حلول کرسکتی ہے جو اپنی برمی بہن کی عصمت دری کے بدلے مثل شاہین برما پر جھپٹ پڑے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ مسلمان حکم ران کے اندر کا سویا ہوا صلاح الدین ایوبی کروٹ لے؟
تو اُن کا ایک ہی جواب ہے کہ ’’نہیں، نہیں، نہیں۔‘‘
کسے آواز دیتے ہو یہاں تم
کسے تم سوئے مصر اب دیکھتے ہو
صلاح الدین کب کا مر چکا ہے۔
ایک طرف بدھسٹ کے دست ستم کا کوئی عجز نظر نہیں آتا، تو دوسری طرف مسلمانوں کی تلواریں کند ہوچکی ہیں اور نتیجہ تب نکلے گا جب برما کا آخری مسلمان صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے گا۔ سو اس سے پہلے کہ ہمیں ایسے بھیانک نتائج دیکھنے کو ملیں، آئیں! اپنے اپنے محاذ پر برمی بھائیوں کی مدد کریں اور اپنے حکم رانوں کو ہر طرح سے غیرت سے آشنا کرنے کی کوشش کریں۔ ممکن ہے کہ پھر وہ پرانی مثالیں مسلم امہ کے لیے سچ ثابت ہوں۔
ہوئے احرارِ ملت جادہ پیما کس تجمل سے
تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زندانی
نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔