ملک شیر محمد خان المعروف وزیر مال

ملک شیر محمد خان المعروف وزیر مال (مرحوم) کی یاد میں  | فضل رازق شہابؔ

سوات کی سابقہ ریاستی حکومت ہر سال ایک فہرست جاری کرتی جس میں پروٹوکول کے لحاظ سے ریاستی حکام کی ترتیب درج ہوتی جس کو انگریزی میں “Order of Precedence” کہا جاتا ہے۔ اس کے سیریل نمبر 1 پر چار عہدے درج ہوا کرتے تھے، یعنی وزیر ملک، وزیر مال، سپہ سالار اور چیف سیکرٹری۔ یہ چاروں پروٹوکول کے لحاظ سے مساوی تھے اور حکمران ریاست کے بعد ان کا نمبر آتا تھا۔ اس میں دلچسپ یہ ہے کہ ان اعلیٰ عہدوں پر تعینات حضرات کے ریٹائر یا وفات پانے پر والئی سوات مرحوم نے ان کے احترام میں یہ عہدے ہی ختم کردیے، سوائے چیف سیکرٹری کے جو آخر دم تک اس عہدے پر فائز رہے۔ وضاحت کے لیے عرض ہے کہ وزیر ملک صاحب امیر سید دوران ملازمت انتقال کرگئے۔ وزیر مال صاحب مرحوم جناب شیر محمد خان ریٹائر ہوگئے اور سپہ سالار صاحب سید بادشاہ گل بھی ریٹائر ہوگئے، تو والی صاحب نے یہ تینوں عہدے ہی کالعدم کردیے۔

مرحوم ملک شیر محمد خان منگورہ کے سب سے معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان کے والد کا نام جانس خان اور دادا کا تجل نور ملک تھا۔

شیر محمد خان ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر تھے اور ریاست کے استحکام اور تعمیر و ترقی میں ان کا کردار بہت اہم تھا۔ وہ ایک باوقار اور سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے۔ نہایت جامہ زیب اور صفائی پسند انسان تھے۔ ریاست کا مالی استحکام ان کے تدبر اور بہتر حکمت عملی کی وجہ سے ممکن ہوسکا تھا۔ ان کی ذاتی نگرانی میں ریاست کے محاصل ہر سال بڑھتے رہے جس کی وجہ سے ریاست کی تعلیم، صحت اور رسل و رسائل کے شعبوں میں برق رفتار ترقی ممکن ہوسکی۔

مرحوم شیر محمد خان جو عام طور پر وزیر مال صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے اور اب بھی یہ نام ہی ان کی شناخت ہے، تحصیل دار کے عہدہ سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اس اعلیٰ ترین عہدہ تک پہنچے تھے۔

سیریل نمبر 1 پر چار عہدے درج ہوا کرتے تھے، یعنی وزیر ملک، وزیر مال، سپہ سالار اور چیف سیکرٹری۔ یہ چاروں پروٹوکول کے لحاظ سے مساوی تھے اور حکمران ریاست کے بعد ان کا نمبر آتا تھا۔ اس میں دلچسپ یہ ہے کہ ان اعلیٰ عہدوں پر تعینات حضرات کے ریٹائر یا وفات پانے پر والئی سوات مرحوم نے ان کے احترام میں یہ عہدے ہی ختم کردیے، سوائے چیف سیکرٹری کے جو آخر دم تک اس عہدے پر فائز رہے۔ وضاحت کے لیے عرض ہے کہ وزیر ملک صاحب امیر سید دوران ملازمت انتقال کرگئے۔ وزیر مال صاحب مرحوم جناب شیر محمد خان ریٹائر ہوگئے اور سپہ سالار صاحب سید بادشاہ گل بھی ریٹائر ہوگئے، تو والی صاحب نے یہ تینوں عہدے ہی کالعدم کردیے۔

مرحوم کے دوسرے بھائی بھی ریاستی دور میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ان کے ایک بھائی پیر محمد خان فوج کے کمانڈر تھے۔ شریف خان حاکم تھے اور ریاست کے مختلف تحصیلوں میں فرائض منصبی سرانجام دیتے رہے ہیں۔ ایک بھائی ان کے کمان افسر تھے اور سب سے چھوٹے بھائی محمد شاہ خان جو تھانہ دار خان کے نام سے مشہور ہیں۔ پھر وزیر مال صاحب کے ایک فرزند ہمایون خان والئی سوات کے پرسنل سیکرٹری تھے اور دوسرے بیٹے شیر شاہ خان تحصیل دار تھے۔ غرض یہ معزز خاندان ہر لحاظ سے ریاست کی تعمیر و ترقی میں ممد و معاون رہا ہے۔

شیرافگن خان جو عام طور پر کاکا کی عرفیت سے جانے جاتے ہیں، وزیر مال صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ وہ آج کل تحریک انصاف کے ایک نہایت فعال اور متحرک راہ نما ہیں اور شب و روز تحریک کا پیغام پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ موصوف سے میری پہلی ملاقات غالباً 1954ء میں ہوئی۔ میں ہائی اسکول شگئی سیدوشریف میں چوتھی کا طالب علم تھا۔ ہمارے اسکول میں کوئی تقریب ہونے والی تھی۔ اسکول میں کرسیوں کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ باہر سے آئے ہوئے تمام مہمانوں کے لیے پوری ہوتی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے ایک لڑکے کو جو تقریباً میرا ہم عمر تھا، کہا: ’’بیٹا! تمھارے گھر میں کرسیاں تو ہوں گی۔ تم اپنے ساتھ دس پندرہ لڑکے لے جاؤ تاکہ وہاں سے کرسیاں اٹھا کر سکول لے آئیں۔ میں بھی ان لڑکوں میں شامل تھا۔ جب ہم اس لڑکے کے دروازے تک پہنچے، تو اس نے کہا تم یہاں باہر ٹھہرو۔ میرے ساتھ صرف دو کم عمر لڑکے اندر جائیں گے اور ہم تینوں گھر سے کرسیاں نکال کر تمھیں دیں گے۔ اس نے مجھے اور میرے ایک ہم جماعت سلیم اللہ عرف منجور کو اشارے سے بلایا اور ہم اس کے ساتھ اندر چلے گئے۔ میں اس گھر کی وسعت اور خوب صورتی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اتنا شان دار گھر تو ہم نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا اور کیوں نہ ہو یہ ریاست کے سب سے اہم عہدہ پر متمکن وزیر مال صاحب کی سرکاری رہائش گاہ تھی۔ تب مجھے پتا چلا کہ یہ لڑکا وزیر مال صاحب کا بیٹا ہے اور اس کا نام شیرافگن ہے مگر چھوٹے بڑے سب اس کو ’’کاکا‘‘ کَہ کر پکارتے ہیں۔

وقت گزرتا گیا ہم ہائی اسکول شگئی سے ودودیہ ہائی اسکول منتقل ہوگئے۔ کاکا بھی اسی اسکول میں آگئے۔ ان کا میرے ہم جماعت سلیم کے ساتھ بہت نزدیکی تعلق تھا۔ اب ہم بڑی کلاسوں میں آگئے تھے اور بچپن کی ترجیحات اور پسند و نا پسند تبدیل ہوگئے تھے۔ مگر ان کے ساتھ میری محبت ویسی کی ویسی رہی۔ وہ ہم سے ایک کلاس جونیئر تھے۔ لیکن بریک کے وقت ہم اکٹھے ہوجاتے اور شام کو ہاکی کھیلنے گراسی گراؤنڈ جاتے تو ان سے ملاقات ہوجاتی۔ واپسی میں، مَیں ان کے اور سلیم کے ساتھ ان کے گھر تک جاتا اور پھر واپس افسر آباد آجاتا۔ جہاں پر ہم ایک سرکاری مکان میں رہتے تھے۔ کبھی کبھی ہم ناراضگی بھی ہوجاتی جس طرح اس عمر میں عام لڑکوں میں ہوتی ہے، مگر ہم اس کو طول نہیں دیتے تھے اور کوئی نہ کوئی پہل کرکے دوبارہ گھل مل جاتے۔

شیرافگن خان جو عام طور پر کاکا کی عرفیت سے جانے جاتے ہیں، وزیر مال صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ وہ آج کل تحریک انصاف کے ایک نہایت فعال اور متحرک راہ نما ہیں اور شب و روز تحریک کا پیغام پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔

جہانزیب کالج یونین کے سالانہ انتخابات ہو رہے تھے، میں تھرڈ ائیر میں تھا اور کاکا سکینڈ ائیر میں۔ انھوں نے یونین کی صدارت کے لیے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے زور و شور سے ان کا انتخابی مہم چلایا اور وہ اس عظیم الشان ادارے کے یونین کے صدر منتخب ہوگئے۔ مجھے آج تک یونین کے سالانہ بجٹ کا سیشن یاد ہے جس میں ’’کاکا‘‘ نے اپنی اکثریتی برتری کے زور پر وہ بجٹ بلڈوز کر دیا۔ اپوزیشن کے لڑکوں کی تعداد برائے نام تھی۔ اگر کوئی مخالف کسی آئٹم پر اعتراض کرتا، تو کاکا خان اسے ڈانٹ کر خاموش کرتے اور یا ہال سے نکلوا دیتے۔ یونین کی تمام کارروائی انگریزی میں ہوتی تھی۔ نقطۂ اعتراض ہو یا تحریک التوا سب کے لیے انگریزی استعمال ہوتی تھی۔ کاکا نے نہایت خوش اسلوبی سے اپنا صدارتی ٹرم پورا کیا تھا اور آج وہ شیرافگن خان کاکا، پاکستان تحریک انصاف کا ایک اہم لیڈر ہے اور تحریک کے کارکن ایک بہتر صبح کی آس پر اس کا اور عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔