اسلام آباد(ویب ڈیسک)سپریم کورٹ نے پاکستان ریونیوآٹومیشن پرائیویٹ لمیٹڈ کو کمپنی بنانے کے بجائے محکمہ نہ بنانے پر سوال اٹھا دیا ۔عدالت نے ریمارکس دیئے پی آر اے ایل کو نجی کمپنی کے بجائے محکمہ کیوں نہیں بنایا؟ ایف بی آر خود سافٹ ویئر ڈیزائن کیوں نہیں کرتا؟ ڈیڑھ لاکھ تنخواہ والے کو آپ 13لاکھ ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان ریونیوآٹومیشن پرائیویٹ لمیٹڈ (پی آر اےایل )کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی،چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی آر اے ایل کونجی کمپنی بنانے کے بجائے محکمہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ ،ڈیڑھ لاکھ تنخوا لینے والے کو آپ 13 لاکھ تنخواہ ادا کر رہے ہیں۔
جس پر وکیل ایف بی آر نے بتایا کہ کمپنی میں کام کرنے والے تمام لوگوں کو حکومت نہیں بلکہ کمپنی خود ادائیگی کر رہی ہے، پاکستان ریونیوآٹومیشن سافٹ وئیر تیار کر کے ایف بی آر کو فراہم کرتاہے۔ جسٹس گلزار احمد کی جانب سے ایف بی آر سے خود سافٹ ویئر ڈیزائن نہ کرنے کے استفسار پر وکیل نے کہا کہ کمپنی صرف سافٹ ویئر ڈیزائن کرتی ہے اس میں ڈیٹا ایف بی آر خود درج کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر پی آر اے ایل کی کیا ضرورت ہے ،ایف بی آر سافٹ وئیر خود کیوں نہیں ڈیزائن کرتا؟۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آج تک آئی ایس ایف کے 1700کنٹینرز کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس بھی لے رکھا ہے،اس معاملے کو عدالت نے منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ عدالت نے پی آر اے ایل کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر آئندہ سماعت پر چیئرمین ایف بی آر کو طلب کر لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل انور منصور بھی آئندہ سماعت پر پیش ہوں۔ عدالت نے ایف بی آر اور پی آر اے ایل سے ایک ماہ میں تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ سپریم کورٹ نے آئی ایس ایف کنٹینر سکیم کیس کو بھی اس کیس کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ کےلیے ملتوی کر دی۔