یہ دیس ہے دادی بلورستانی کا (چوتھا حصہ) | فضل مولا زاہدؔ
اس وقت ایک اہم سوال ا پنا دماغ چاٹ رہا ہے۔ شاہراہِ ریشم اور اباسین دونوں ایک ہی وقت ایک ہی جگہ پر اکھٹے نمودار ہوئے ہیں۔ کس کی بات پہلی کی جائے اور کس کی بعد میں؟ یہ سوال بڑا گنجلک ہے۔ ایک کو ہم مقامی لوگ دنیا کا آٹھواں عجوبہ سمجھتے ہیں، دوسرے کو ’’اباسین‘‘ یعنی دریاؤں کا باپ۔ پنجاب میں اس کو دریائے سندھ کہتے ہیں۔ آگے جائیں گے، تو پتا چلے گا لیکن کہتے ہیں کہ اباسین کی شروعات تبت وسطِ ایشیا کا ایک علاقہ جو اب چین میں شامل ہے، کی ایک جھیل مانسرور کے ارد گردسے ہوتی ہے۔ راستے میں مزید دریا، خوڑ اور ندی نالیاں اس دریا کی معیت میں چل کر اباسین کا نام’’ روشن‘‘ کرتی ہیں۔ بات اب سمجھ میں آگئی کہ ڈگری کالج مینگورہ سوات کے شعبہ ہسٹری کے پریشان حال پروفیسر ’’روشن‘‘ کا ہمارے ساتھ اس سفر میں ساتھ نہ دینے کی وجہ کیا ہے۔ شائد اُسے یہ شک ہے کہ اباسین کے روشن ہونے سے اپنا نام کیسے روشن رہ سکے گا؟ ایک نیام میں دو تلواریں اور ایک شاہراہ پر دو روشنوں کا قافلہ کیسے چلے گا؟ ہم بات اباسین کی کر رہے تھے، پتا نہیں یہ بے چین پرفیسر اس بحث میں کیسے گھس آیا۔ پُررونق شمالی علاقہ جات سے نکل کر بے امن خیبر پختون خوا سے ہوتا ہوا اباسین اپنی تمام تر زرخیزی، خوشبو اور مٹھاس کے مواد کے ساتھ اٹک کے مقام پر پُرامن پنجاب میں داخل ہو جاتا ہے۔ شمالی علاقہ جات کے محدود وسائل کو تہہ و بالا کرنے والا یہ اباسین وہاں کی مٹی کی زرخیزی اور مٹھاس کا تحفہ پنجاب کے حوالے کرتا ہے۔ اٹک سے مٹھن کوٹ کے خطے کو انتہائی زرخیز علاقے کے خطاب سے نوازتا ہے اور تب تین ہزار دو سو کلو میٹر لمبے اس دریا کو بے چین سندھ میں ٹھٹھہ کے قریب بحیرۂ عرب اپنی آغوش میں دھیرے دھیرے بہلا پُھسلاکر مزے کے ساتھ یوں ہضم کر لیتا ہے، گویا یہ روئے زمین پر کبھی موجو ہی نہ تھا۔ قصہ خلاص۔ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ اباسین جہاں پیدا ہوتا ہے،پھلتا پھولتا ہے اور جہاں کی نمک نوش کرتا ہے، عجب ہے کہ وہاں کی زمین اور وسائل کا بھی ستیا ناس کرتا ہے، زندگیوں کوبھی ڈکارتا ہے، ڈر اور خوف بھی پھیلاتا ہے، دوری بھی لاتا ہے اور یہاں کی مخلوقات پر کوئی نظرِ کرم کئے بغیر بھاگتا چلاجاتا ہے۔ ’’واہ رے دریا، تیری کون سی لہر سیدھی۔
بات کرتے ہیں، اُس شاہراہ کی جس پر اب ہم رواں دواں پٹن کی پہاڑیوں کے پہرے میں آگے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ تقریباً تیرہ سو کلو میٹر لمبی یہ شاہراہ پنڈی پشاور جی ٹی روڈ پر واقع شہرحسن ابدال سے بازو نکال کر ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، بشام، گلگت بلتستان اور درۂ خنجراب کو اپنی لڑی میں پروتی ہوئی چین کے شہر کاشغر تک پاؤں پھیلاتی ہے۔ اس کو سب سے اونچے اور پکے ہائی وے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس سڑک پر کام کا آغاز ۱۹۶۶ء میں ہوا اور ۱۹۷۸ء میں اس کی تکمیل ہوئی۔ پندرہ ہزار پاکستانی اور نو ہزار پانچ سو چینی ماہرین اس کی تعمیر میں کوئی بارہ سال تک مصروف رہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی آٹھ سو پاکستانی اور بیاسی چینی بندے اس کی تعمیر کے دوران میں جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ خنجراب پاس پر اس شاہراہ کی اونچائی چار ہزار چھے سو تریانوے میٹر ہے۔ اسی بنا پر اس کو دنیا کی بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ اس میں چوبیس بڑے، ستر چھوٹے پل اور سترہ سو آٹھ آبی گزرگاہیں، ہیں۔ یہ شاہراہ دونوں ملکوں کی معاشی شہ رگ ہے اور پسماندگی سے نکلنے کا ایک ذریعہ ہے، ایسا ہی ہم نے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے۔
ضلع کوہستان، جس کو ہزارہ ڈویژن کے وجود سے کاٹ کر اُنیس سو چھہتر میں ضلع بنایا گیا، اب دو ضلعوں یعنی اَپر اور لوئر کوہستان میں بٹا ہوا ہے۔ اس کا کل رقبہ سات ہزار چار سو بیانوے مربع کلو میٹر اور قابلِ کاشت رقبہ کوئی ایک لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ ہے۔ شاہراہِ ریشم پر واقع اس خشک و بنجر پہاڑیوں کی سرزمین کے جن دو چھوٹے شہروں پر پہلے نظر پڑتی ہے، وہ ہے دوبیر اور پٹن، جو بشام سے تقریباً بیس بائیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ پٹن ۱۹۷۴ء میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہوتا ہوگا، جب یہاں زلزلے سے شدید نقصان ہوا تھا۔ پہاڑیاں پھٹ گئی تھیں، روڈ بلاک ہوگیا تھا اور ایک قیامت کی صورتحال سے لوگوں کا واسطہ پڑا تھا۔ آج پٹن وہ پٹن نہیں رہا۔ وہ زخم اب مندمل ہوچکے ہیں۔ یہاں کی جوان نسل کو پتا بھی نہیں کہ اکتالیس سال پہلے ان کے اسلاف کس قیامت سے ہو گزرے تھے اور یہاں کتنی بڑی تباہی آئی تھی۔ جغرافیائی تنہائی، معاشرتی جہل اور معاشی کسمپرسی کے شکار یہاں کے لوگوں کی زندگی بڑی اجیرن ہے۔ غربت کا راج اپنے زوروں پر ہے۔ عام لوگوں کا ذریعۂ معاش محدود زراعت، لکڑی کے چند ٹکڑے، کوئلہ کی کان اور بیرونی ممالک میں محنت مزدوری کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ وادی تنگ اور دشوار گزار ہے۔ اس کے بعد علاقہ وسیع اور ماحول حسین ہو جاتا ہے۔
داسو، کوہستان کا ضلعی صدر مقام ہے۔ یہاں ڈیم پر بھی کام شروع ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ ہے تو داسو میں اور ملازمتیں بانٹی گئی ہیں کہیں اور، جس پر کوہستانی آگ بگولا ہیں۔ مقامی لوگوں سے معاہدہ ہوا تھا کہ زمین کے بدلے اُن کو ملازمتیں دی جائیں گی۔ اب پتا چلا ہے کہ کل پینسٹھ عدد آسامیوں میں تو پچاس پر دیگر بھائیوں نے اپنے پَر پھیلائے رکھے ہیں، یہاں تک کہ ڈرائیورز وغیرہ بھی بیرونی کوہستان سے لائے گئے ہیں۔ ایسے حالات میں مقامی لوگوں کی طرزِ زندگی میں کیوں کر بہتری آئے گی؟ تاہم اُمید پر دُنیا قائم ہے اور پاکستان میں تو اُمید کے سوا کچھ بھی نہیں بھائی۔
کوہستان کے مختلف علاقوں بارے کہا جاتا ہے کہ جرگہ دہ رانولیا، اقبال دہ پٹن، جہل دہ جالکوٹ (جرگہ رانولیا کے علاقے کا، اتفاق و اتحاد پٹن کا اور جاہلیت جالکوٹ کی مشہور ہے)۔ وادئی کوہستان کے سپنوں اور خوبصورتیوں میں گُم ہونے اور گُم سُم ہونے کے لئے اس کی ایک ایک بستی، ایک ایک وادی، ایک ایک ندی میں جانا پڑے گا اور یہاں کی مچھلیوں کے ساتھ جال کے ذریعے ’’جال مچولی‘‘ کھیلنی ہوگی، جو کہ فی الوقت ممکن نہیں۔ سو سیدھی سیدھی اپنی راہ لیتے ہیں۔ بھاشا اور چلاس کی گرمی سے خفیہ خفیہ سوتے ہوئے گزرتے ہیں۔ تاہم دُنیا کے منفرد مقام جگلوٹ جہاں تین پہاڑی سلسلے آ کر ملتے ہیں، کی زیارت ضرور کرتے ہیں۔ اس کا احوال آگے بیان کریں گے۔ ابھی سفر کے مراحل اور بھی ہیں۔
سب کو خبر ہو کہ’’ ہم نے حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کا تہیہ کیا ہوا ہے۔‘‘ یہ انکشاف محکمہ وائلڈ لائف سڑک کنارے جگہ جگہ لگائے گئے سائن بورڈز کے ذریعے کر رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ جھوٹ کو سچ کے پیمانے پر رکھ کر بار بار بولو، یہاں تک کہ سننے والے کو اس پر سچ کا گمان ہو جائے۔ ہم کیا، یہاں کے سادہ دل لوگ اس گپ شپ کو سچ مچ، سچ سمجھ بیٹھے ہیں۔ چلو
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
دیگر پاکستانیوں سے پھر بھی اچھے ہیں، سائن بورڈز لگا ئے ہیں، توکچھ کام بھی کرتے ہوں گے۔
لکھنے کو یا کہنے کو الپورئی سے گلگت کا فاصلہ ہے تین سو ساٹھ کلو میٹر، لیکن چلنے کو یہ موٹر وے کے ہزار کلو میٹر پر بھی بھاری ہے۔ اوپر دیکھیں، تو آسمان کو چھوتی ہوئی پہاڑوں اور چٹانوں کی چوٹیاں اپنی بلندی کے گھمنڈ میں سرگرداں ہیں۔ نظر نیچے دوڑاؤ، تو اباسین کا پانی اپنی گہرائی کی مستی میں محوِ رقص ہے۔ سامنے نگاہ ڈالو، تو رش بھاری گاڑیوں کا اور سڑک کی تنگ دامنی آڑے آتی ہے۔ ایسے میں صبح کا نکلا شام کو گلگت نہ پہنچے، تو حیرت کی ضرورت زیادہ ہوگی یا دعاؤں کی؟ آپ خود ہی سیانے ہیں، خود ہی سوچیں۔ مبارک ہو، ہم نے برسرِ راہ دیکھا کہ دیامیر بھاشا ڈیم پر بھی کام جاری ہے، لیکن نیم دلی کے ساتھ۔ اگرچہ اس منصوبے کی اہمیت بہت ہے۔ ڈیم کے سائٹ پر لگا سائن بورڈ ہم نے بڑے غور سے دیکھا۔ اُس پر سوائے ڈیم کے لوکیشن کے، دیگر معلومات جو بھی درج ہیں، وہ صرف ٹیکنکل لوگوں کی سمجھ بوجھ کے لئے ہیں، عام لوگوں کے لئے نہیں۔ اس سائن بورڈ پر، پروجیکٹ کے آغاز اور تکمیل یا فنڈنگ وغیرہ سے متعلق کوئی ایک لفظ بھی درج نہیں۔ کہتے ہیں کہ اس کی تعمیر سے ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ لیکن خدا ہی جانے، کب ہوگی؟
بارہ گھنٹے سفر کے بعد شام گئے گلگت کی دہلیزپر ’’بوٹ‘‘ رکھے، تو یوں محسوس ہوا گویا ہم دورِ نوکے محمد بنِ قاسم ہیں اور گلگت فتح کر کے کل کلاں آگے کی طرف پیش قدمی کر نے کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔ فرعون بن جانے سے پہلے ہم نے دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے اور غلط سوچ کو ذہن کے دریچوں سے بھگاکر دم لیا۔ کہاں فرعون کی فرعونیت اور پھر مصر کی شہر عریش میں اُس کی ہیبت ناک بے ڈھنگی تیرتی ہوئی لاش۔
’’ سو آج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے، تاکہ تو اُن کے لئے نشانِ عبرت ہو، جو تیرے بعد ہیں۔‘‘ القرآن
(جاری ہے)