یہ دیس ہے دادی بلورستانی کا (چھٹا حصہ)


رات سونے سے پہلے گلگت شہر کا دیدار کیا۔ سویا گلگت، جاگتے گلگت سے زیادہ پُرلطف اور پُروقار لگ رہا ہے۔ دل کرتا ہے کہ رات چل پھر کر گزاری جائے، لیکن ہم اپنی مرضی کے مالک تھوڑی ہیں۔ صبح صبح ہنزہ کے پاکیزہ شہر میں قدم رنجہ فرمایا، آگے عطا آباد، سُست اور چائنا بارڈر تک پیش قدمی کرنا ہے۔واپسی پر رات کے قیام کا شرف ہنزہ نگر کو دینا ہے۔
چل ’’آگے‘‘ کی طرف اے گردشِ ایام تو
سونے کی لاحاصل کوشش کرتے ہیں۔ ’’کروٹیں اَدلتے بدلتے ہیں۔‘‘ تھکاوٹ جاتی نہیں، نیند آتی نہیں۔ سوچتا ہوں، گلگت بلتستان کی اگر بات کی جائے، تو کہاں سے شروع کی جائے؟ کون سی پہلے کی جائے اور کون سی بعد میں؟ سطح سمندر سے ساڑھے تیرہ ہزار فٹ بلند دیوسائی کے میدان اور اس کی پُرسکون، نیلگوں پانی کی جھیل کی بات کی جائے، جہاں علاقائی روایات کے غیر مطابق پَر پھیلائے اُڑتی پریاں تو نظر نہیں آتی، لیکن بندہ چاہے تو خیالی پریاں بڑے آسانی کے ساتھ’’ اَنوائٹ‘‘ کرسکتا ہے۔ ہمارے اکثر ساتھیوں کے ارادے تو ایسے ہی لگتے ہیں۔ ہر ایک کی آنکھیں اَدھ کھلی سی اور اندر کو دھنسی ہوئی ہیں۔ ہمیں، افضل شاہ اور سلطان حسین کو دھنسی ہوئی آنکھوں والوں کے گینگ میں شمار نہ کیا جائے۔ یہاں کی خوش گفتار اور خوش دل لوگوں کی بات کی جائے، جو مہمان نوازی اور دوستی کی آڑ میں سیاحوں کو بہلا پھسلا کر اپنے مرید بنانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ کیوں نہ غِذر کے حسن، لوگوں کی خوبصورتی، معصومیت اور بھائی چارے کے بابت بات کی جائے۔ جس کے مکین، بشمول خواتین اور بچوں کے سرِ راہ چلتے سیاحوں اور مہمانوں کے ساتھ باقاعدہ سلام کلام کرتے ہیں اور ان کو ہر ممکن مدد اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یا وادیٔ ہنزہ کے خاموش ماحول، ترقی پسند سوچ اور لاڈ پیار کو زیرِ موضوع بنایا جائے؟ کہیں بے انصافی نہ ہو جائے اور یہ معصوم لوگ جو دلوں کے ساتھ ساتھ، ذہن و فکر کے بھی معصوم ہیں، ’’مائنڈ‘‘ نہ کر جائیں۔ کیوں نہ اس دوران میں یہاں کے متعلق کچھ بنیادی باتیں اور معلومات شیئر کر لیں، جو آنے سے پہلے ہم نے پڑھ رکھی تھیں، دوستوں نے بتائی تھیں یا آپس میں باتوں کے دوران میں ان کے متعلق پتا چلا تھا۔ کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل ہنزہ، نگر اور گلگت بلتستان کے علاقوں پر کبھی کشمیر کے ڈوگرہ حکم رانوں کا سکہ چلتا تھا۔ اُنیس سو اڑتالیس میں مقامی لوگوں نے لڑ کر اپنے حاکموں اور والیوں سے نجات حاصل کی۔ یکم مئی اُنیس سو سینتالیس کو گلگت کے گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے ایک آزاد ریاست آزاد جمہوریہ گلگت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بلتستان چودہ اگست اُنیس سو اڑتالیس کو آزاد ہوا اور پھر یہ ریاستیں برضا و رغبت پاکستانی ریاست میں شامل ہوئیں، جو اِن کی پاکستان سے دوستی اور بے پناہ محبت کا مظہر ہے۔ وگرنہ چین بادشاہ تو اُن کے گھر کے دہلیز پر’’بیٹھا‘‘ تھا۔ وہ تو ہنزہ تک کے علاقے پر اپنی ملکیت کی دعویداری تسلیم کروانے کے درپے تھا۔ یہاں تک کہ اُنیس سو ترپن میں بھی چین نے کئی بار ہنزہ سرحد کی خلاف ورزی کی۔ ایوب خان نے جب یہ معاملہ سنجیدگی سے لے لیا، تو چینی تب چین سے بیٹھ گئے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان نے اس علاقے کو اپنی’’بانہوں‘‘ میں لے تو لیا، لیکن لوگوں کو دل سے قومی دھارے میں شامل کیا، نہ ترقی کے راستے پر لے جانے میں اُن کی کوئی مناسب مدد کی۔ بھٹو دور میں اُن پر یہ مہربانی ضرور ہوئی کہ مختلف اشیا مثلاً گندم، پیٹرول، ڈیزل، کھاد اور گھی وغیرہ پر بھاری سبسڈی دی گئی، جو بعض اشیا پر کسی نہ کسی صورت آج بھی جاری ہے۔ ناردرن ایریاز کے لئے ایک بہترین اور سستا ٹرانسپورٹ سسٹم متعارف کیا گیا، جو اَب بھی ’’ناٹکو‘‘ کے نام سے چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کی زیرِ نگرانی چل رہا ہے۔ اس سے نقل وحمل میں آسانی، ارزانی اور تیزی آئی۔ دو ہزار نو میں حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات بھی دے دیئے۔ یہاں پر انتخابات ہوئے اور لوکل سطح پر اختیارات کسی حد تک علاقائی نمائندوں کے ہاتھوں میں آگئے۔ اب یہاں کے لوگ ایک مکمل صوبائی حیثیت کے حصول کے متمنی ہیں۔

دفاعی اور جغرافیائی نقطۂ نظر سے اس خطے کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔ یہ پاکستان کا واحد علاقہ ہے جس کی سرحدیں تین ملکوں سے ملتی ہیں۔ چین، انڈیا ا ور افغانستان۔ افغانستان کی واخان پٹی پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے۔ شمال مشرق میں چین کا صوبہ سنکیاگ واقع ہے۔ جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر ہے۔ جنوب میں آزاد کشمیر اور مغرب میں اپنا پختونخوا واقع ہے۔ یہاں کی آبادی کوئی بائیس لاکھ کے لگ بھگ ہے اور رقبہ ایک لاکھ اُنیس ہزار نو سو پچاسی مربع کلومیٹر۔علاقائی زبانیں شینا، بلتی، بروشیسکی اور کوہستانی تو ہے ہی، لیکن اکثریت اردو بھی بولتی ہے۔ نیا صوبہ دو ڈویژنوں پر مشتمل ہے، یعنی گلگت اور بلتستان۔ بلتستان سکردو اور گانجھے جبکہ گلگت کا علاقہ گلگت، غذر، دیامیر، استور اور ہنزہ نگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ شائد حال ہی میں اِک دو ضلعے مزید بھی بنے ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں ہیں۔ راکاپوشی، نانگا پربت اور لیڈی فنگر۔ تین بڑے گلیشئر بھی یہاں کے حدودِ اربعہ پر مفت میں راج کرتے ہیں، جو سیاحوں کی آنکھوں کو طراوت بخشنے کے ساتھ ساتھ ان کے دلوں کو باغ باغ کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں اور پورے ملک کے موسموں میں اعتدال لاتے ہیں۔ ساتھ فصلوں کی آبپاشی کے لئے پانی کی ٹینکیوں کا کردار ادا کرتے ہیں اور زرعی پیداوار میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ان سے نہ صرف ملک کے ’’گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ‘‘ (جی ڈی پی) میں اضافہ ہوتا ہے، بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی ہوتی ہے بلکہ ملک کی فوڈ سیکورٹی کی صورتحال میں بھی کافی بہتری آتی ہے۔
دنیا کی تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے کوہِ قراقرم، ہمالیہ اور ہندو کش ’’جگلوٹ‘‘ کے مقام پر آپس میں ملتے ہیں، جہاں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہوں، علیک سلیک کر رہے ہوں اور عام لوگوں کو رفاقتیں بڑھانے اور رنجشیں دفن کرنے کا درس دیتے ہوں۔ گنتی سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں میں پانچ اس خطے کی ملکیت ہیں۔ کے ٹو چوٹی کی بلندی آٹھ ہزار چھے سو گیارہ میٹر ہے۔ نانگا پربت کسی سے کم ہے کیا، یہ بھی آٹھ ہزار ایک سو چھبیس میٹر کی بلندی سے خود کو ڈسپلے کے لئے پیش کر تا ہے۔

بلتستان کی آبادی زیادہ تر شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ گلگت میں یہ تناسب ملا جلا ہے۔ کہیں اہلِ سنت اور کہیں شیعہ مسلمان بستے ہیں۔ مجموعی طور پر یہاں کے تمام فرقے ایک دوسرے کے ساتھ لاڈ پیار اور محبت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ شیطانی قوتیں بھی کبھی کبھی غالب آجاتی ہیں اور زندگی کے حسین رنگوں میں بدرنگی پھیلاتی ہیں۔ مثبت اور منفی، نیکی اور بدی، رحمانی اور شیطانی قوتوں کا چکر ماضی میں بھی چلتا تھا، اب بھی چلتا ہے اور مستقبل میں بھی یونہی چلتا رہے گا۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں۔

لیکن ہم کون ہوتے ہیں کہ اس بارے لیکچرز اور درس دیں۔ ابھی تک کے لئے اتنا ہی کافی و شافی سمجھیں۔ نیند آئے نہ آئے، ہاسٹل کی دیوار پر لگے وال کلاک کے ماتھے پر رات کا ایک بج چکا ہے۔ صبح سویرے اُٹھنا ہے اور واش روم پر پہلے پہلے قبضہ جمانا ہے۔ سلطان حسین خان اگر پہلے واش روم میں جا گھسیں، تو پانی کی ٹینکی دوبارہ کون بھرے اور دن کے بارہ بجے ناشتہ کون دے؟ بیشک بناؤ سنگھار، رنگ و روغن، حجامت اور مونچھ بنائی ا ور باقی ماندہ ڈنٹنگ پینٹنگ پر اتنا وقت لگنا تو بنتا ہے۔ اپنا سردار زیب جامرہ نام کا سردار اور جامرے کا شاعرہے۔ یاد رہے جامرہ لیلونئی کے مغربی پہلو میں کھیتی باڑی کے ایک چھوٹے سے قصبے کا نام ہے، جہاں کھیت کے ایک کونے میں بنے کچے گھروندے میں وہ اپنی شاعری کا ذوق پکا کرنے کیلئے شاذ و نادر پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ کسی چائینہ طرز کے بنے ایسے پاکستانی محکمہ میں ملازمت کرتے ہیں، جوکسٹم شدہ نہیں۔ بالوں کو باقاعدہ ’’ریولون سلک براؤن‘‘ برانڈ کلر بھی دیتے ہیں یہ شاعرِ نامدار۔ دوسری طرف سلطان حسین ہیں جو صرف نام کے نہیں، رہن سہن، اُٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کی مدمیں بھی سلطانی عادات و اطوار کے مالک ہیں۔ اپنے علاقے کے ناظم ہیں۔ گاؤں میں فلاحی ادارہ چلاتے ہیں۔ گاؤں گل جبہ تحصیل کبل سوات کے باسی ہیں۔ اس کے گاؤں کا آفیشل نام ’’غم جبہ‘‘ ہوا کرتا تھا۔ سلطان اور اس کے دوستوں نے لفظ ’’غم‘‘ کو ’’گل‘‘ میں تبدیل کرکے ’’گل جبہ‘‘ بنا لیا، جو ہمیں بسر و چشم منظور ہے۔ چونکہ وہ چترال کے سفر میں بھی ہمارے ساتھی رہے ہیں اور اُن کے بھرپور سفری سامان، حتیٰ کہ میک اپ اور ہیئر کلرز وغیرہ پر ہم اپنا حق بھی جتاتے ہیں، اس لئے اس کو زیادہ چھیڑنے کا موڈ نہیں۔ ہمیں اُن کی عادات و اطوار کا علم ہے۔ پانچ وقت کی نماز باقاعدہ پڑھنا اور اپنا ’’مافی الضمیر تصویری‘‘ آئی فون میں محفوظ کرنا، فیس بُک پر شیئر کرنا شرعی نقطۂ نظر سے عین عبادت سمجھتے ہیں۔ بعض باتوں کے افشاں ہونے پر خفا بھی ہو جاتے ہیں،خفگی کا اظہار قہقہے اُڑا کر کرتے ہیں، پھر یک دم سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔ خریداری خفیہ خفیہ بھی کرتے ہیں اور راز پاش ہونے کے ڈر سے بریف کیس کے تالے کا خفیہ کوڈ بھی بڑے اہتمام کے ساتھ تنہائی میں کھولتے اور بند کرتے ہیں۔
اب آنکھیں نیند سے بوجھل ہو گئی ہیں، دماغ بھی ساتھ چھوڑنے کو ہے، باقی کل نہیں، اگلے دن، ایک دن کی چھٹی تو روا ہے ہر مذہب میں…… فی امان اللہ۔ (جاری ہے)