کراچی(ویب ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے پروازوں کی تاخیر سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ملک میں ائیرپورٹس پر جرائم کی ڈیلنگ ہوتی ہے اور کوئی روکنےو الا نہیں۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں فلائٹس کی تاخیر اور مسافروں کوسہولیات سے متعلق معاملے کی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت ہوئی جس سلسلے میں ڈی جی سول ایوی ایشن کی بجائے ایڈیشنل ڈائریکٹر کی پیشی پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے ایڈیشنل ڈائریکٹر سے مسافروں کو سہولیات سے متعلق پوچھا تو وہ عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔ اس پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صرف بھاری تنخواہ لینا ہی آپ کا کام نہیں، جب کچھ پتہ ہی نہیں تو یہاں کیوں آئے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ کہ ائیر پورٹس پر مسافر زمین پر پڑے ہوتے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، مسافروں کے ساتھ سول ایوی ایشن والے کیا کرتے ہیں، سب معلوم ہے، آپ نے کچھ نہیں کیا، آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے، کون جواب دے گا،آپ کوکچھ پتہ ہی نہیں ہے، اتنی بات آپ کو سمجھ نہیں آرہی آپ کیا ڈائریکٹر بنیں گے۔ جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ اگر کوئی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو مسافروں کو ٹھہرانے کے لیے کوئی جگہ ہے؟ اس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس حوالے سے متعلقہ ائیر لائن کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ عدالت نے سول ایوی ایشن حکام پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے ڈی جی سول ایوی ایشن کو فوری طلب کر لیا۔
ایڈیشنل ڈی جی سی اے اے پر اظہار برہمی
کچھ دیر میں ایڈیشنل ڈی جی سول ایوی ایشن تنویر اشرف عدالت میں پیش ہوئے تو ان کی سرزنش ہوئی اور چیف جسٹس نے کہا کہ صرف دفتر میں بیٹھ کر گَدی گرم کررہے ہیں، اسسٹنٹ اور چپراسی کو بھیج دیتے ہیں۔ عدالت نے ایڈیشنل ڈی جی سول ایوی ایشن سے استفسار کیا کہ آپ کو کورٹ کے آرڈرز کا نہیں پتہ تھا؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ مجھے عدالتی احکامات کا صبح پتہ چلا ہے، ہم نے کافی اقدامات کرلیے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مسائل تو اب بھی چل رہے ہیں جس پر ایڈیشنل ڈی جی بتایا کہ دھند کی وجہ سے فلائٹس تاخیر کا شکار ہوتی ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہوائی جہاز سے جانے کا مقصدلوگوں کا وقت بچانا ہوتا ہے، فلائٹ منسوخی کی کیا ادائیگی کرتے ہیں؟ اس پر ایڈیشنل ڈی جی نے بتایا کہ یہ کام ائیر لائن نے کرنا ہوتا ہے وہ مسافروں کو کرایہ واپس کرتے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ عملی طور پر کیا ہورہا ہے ہم وہ پوچھ رہے ہیں، اس پر ایڈیشنل ڈی جی نے بتایا کہ میرے پاس مکمل اعداد و شمار نہیں ہیں۔ عدالت نے ایڈیشنل ڈی جی کے جواب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو گھر بھی بھیج سکتے ہیں، ہم آرڈرز کردیں گےکہ عدالت میں سیکریٹری یا ایم ڈی سےکم عہدے کا آفسر پیش نہیں ہوگا، عدالتی حکم کے باوجود آپ پیش نہیں ہوئے ہیں، اگر آپ کوعدالتی حکم کا نہیں پتا تو کچھ نہیں پتا۔
اسلام آباد ائیرپورٹ کسی بھی دن گِر جائے گا: چیف جسٹس
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ائیر پورٹ کی تعمیر جس طرح ہوئی ہے وہ کسی بھی دن گرجائے گا، حکومت دس دفعہ اس کی قیمت ادا کرچکی ہے۔ معزز چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہاکہ جرائم کی ڈیل ائیر پورٹس پر ہوتی ہے، کوئی کسی کو روکنے والا نہیں، ملک سے فارن کرنسی باہر جا رہی ہے، ائیرپورٹ ریکٹ ہے، دنیا بھرکا اسلحہ تک آتا ہے۔
فلائٹس کی تاخیر اور مسافروں کے معاوضے کی تفصیلات طلب
عدالت نے ایک سال کے دوران فلائٹس کی تاخیر اور مسافروں کو معاوضے سے متعلق تفصیلات اور تمام ائیر پورٹس کی مرمت سے متعلق بھی رپورٹ 2 ہفتوں میں طلب کرلیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈی جی سول ایوی ایشن یا ایڈیشنل ڈی جی کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے ایڈیشنل ڈی جی سی اے اے کو حکم دیا کہ پرواز میں تاخیر اور منسوخی سے متعلق تفصیلی رپورٹ جمع کرائی جائے، کسٹم ،اے ایس ایف و دیگر بھی اپنی رپورٹ جمع کرائیں، سول ایوی ایشن نے کتنے واقعات کےخلاف کارروائی کی، رپورٹ دی جائے اور گزشتہ ماہ کی مکمل تفصیلات بھی دی جائیں کہ اس حوالے سے کی اقدامات کئے۔ بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔