لاہور(ویب ڈیسک)مسلمانوں کے لیے آزاد ملک کا خواب دیکھنے والے اور انسانی روح بیدار کرنے والے مفکرِ پاکستان شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو ہم سے بچھڑے آج 82 برس بیت گئے۔ علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور یہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میر حسن اور پروفیسر آرنلڈ جیسے اساتذہ نے ان کی روحانی اور فلسفیانہ تربیت کی، علامہ اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کیا اور بعدازاں لنکنز ان سے بار ایٹ لا اور جرمنی سے پی ایچ ڈی کی۔ علامہ محمد اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں میں آزاد ریاست کے خیال کو جنم دیا تھا، ان کے الفاظ میں یہ طاقت تھی کہ انہوں نے امّت مسلمہ کو ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے اور آزادی کے لیے قدم آگے بڑھانے کی ترغیب دی۔ علامہ اقبال کا شہرہ آفاق کلام دُنیا کے ہر حصے میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے، انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد اور اتفاق کی تلقین کی اور دعوت عمل دی۔
اقبال کی تصانیف
اردو اور فارسی کے عظیم شاعر علامہ اقبال نے ‘سارے جہاں سے اچھا’ اور ‘لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری’ جیسے شہرہ آفاق ترانے لکھے جب کہ شکوہ اور جواب شکوہ جیسے شاہکار لکھے۔ علامہ اقبال کی اردو اور فارسی زبانوں میں تصانیف کے مجموعات میں بال جبریل، بانگ درا، اسرار خودی، ضرب کلیم، جاوید نامہ، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق اور ارمغان حجاز شامل ہیں۔
کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال
وہ کونسا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے
علامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938 کو دنیائے فانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئے لیکن آج بھی دنیا انہیں ان کی تحریروں اور اشعار کے ذریعے خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تو نہیں جہاں کے لیے