عمرفاروق /آگہی
پشاورسے چندکلومیٹرکے فاصلے پر قاضی آباد(کڑوئی )کے نام سے یہ بستی آبادہے، یہ بستی ہمارے پیر و مرشد حضرت خادم الامت ابوالحسن سید نور زمان نقشبندی شاذلی کے آبائواجدادکامسکن ہے ، اس بستی میںحضرت والا کے جدامجد قاضی عبدالرحیم اور حضرت سید میر المعروف بابا جی نیکہ کے مزارات آج بھی مرجع خلائق ہیں ، ہمارے شیخ کاتعلق سادات علویہ کی شاخ قاضی خیل سے ہے ،اسی بستی میں سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ خیبرپختونخواہ کاپانچواں اورقاضی آبادکا پہلااجتماع تھاجس میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ۔
روح پروراجتماع میں ہجوم عاشقاں تھا اورطالبان حق جوق درجوق چلے آئے تھے ،سخت سردی اورشہرکی ہنگامہ خیززندگی سے دوراس چھوٹی سی بستی میں عارضی ساشہرآبادہوگیاتھاخانقاہوں کا قیام زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے، خانقاہیں تزکیہ نفس، اصلاح اخلاق اور نسبت باطنی حاصل کرنے کے لیے قائم کی جاتی رہی ہیں ان میں کچھ مماثلت صفہ مسجد نبوی سے بھی پائی جاتی ہے جو مذکورہ بالا مقاصد کا اصل مرکز ہے۔ بزرگان دین نے ان مقاصد کی تحصیل کے لیے علیحدہ جگہیں متعین فرمائیں جو مرکز تزکیہ واحسان ہواکرتی تھی، اور خانقاہ کے نام سے یاد کی گئیں۔
آج بھی اصلاحِ باطن، درستگی اخلاق اور تحصیل نسبت احسان کی غرض سے لوگ مشائخ کی خدمت اورایسے اجتماعات میں میں جاتے ہیں اور نسبت احسان کی تحصیل کرتے ہیں۔ مشائخ طریقت سالکین کے لیے ذکر وفکر، مراقبہ، محاسبہ، تعلیم وتذکیر کے لحاظ سے کوئی ترتیب بناتے ہیں اور نظام الاوقات متعین کرکے ضبط اوقات کرتے ہیںاسی مقصدکے حصول کے لیے ہم قاضی آبادپہنچے تھے ۔سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ کے پی کے امیرحافظ عثمان حنفی ان کے نائب مفتی سعدمیر،شاہ سوارودیگرنے بڑی محنت اورجانفشانی سے اس اجتماع کاانعقادکیا اوراجتماع کی کامیابی ان کے اخلاص نیت کامنہ بولتاثبوت تھی ۔
کسی جگہ میں نے پڑھاتھا کہ زندگی کی ہر ساعت اضطراب میں نہیں گزر سکتی۔ سفینہ حیات کو سکون چاہیے کہ مسلسل سفر تھکا دیتا ہے۔ کوئی پڑاو، کوئی سرائے کہ کچھ دیر کو دم لے لیں۔ مسافر کو نسبت سفر اور راستے سے ہے۔ پڑاو اس لیے ہوتا ہے کہ وہ تازہ دم ہو جائے اور نئی توانائی کے ساتھ پھر عازمِ سفر ہو۔ سرائے کا خیال تھکاوٹ کے احساس کو کم کر دیتا ہے۔ سر راہ کوئی پناہ گاہ، کوئی شجر سایہ دار۔ہم سب کامقصدیہ تھا کہ انسان کو لوٹنا تو زندگی کے ہنگاموں کی طرف ہی ہے لیکن خانقاہ اس سفرِ حیات میں ایک پڑاو ہے۔ آدمی یہاں کچھ دیر قیام کرتا ہے تاکہ اخلاقی طور پر تازہ دم ہو کر زندگی کی طرف لوٹے۔
اس روحانی اجتماع میںسلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ کے سرخیل سیدنورزمان شاذلی نے پشتوزبان میں کلیدی خطاب کیاجبکہ جانشین سلسلہ حضرت سیدابراہیم شاہ نقشبندی شاذلی ،حضرت شاہ زمان شاذلی سمیت درجنوں سیاسی ،مذہبی وسماجی رہنمائوں کاخطاب کیاجن کاخلاصہ کچھ یوں تھا کہ تصوف کو اصطلاحِ قرآنی میںتصدیق بالقلب کہا جاتا ہے ۔اس کا بنیادی مقصد معاشرے کے اندر روحانی آسودگی کی فراہمی، عوام خواص کیلئے اطمینانِ قلب ،ظاہری وباطنی گناہوں سے محفوظ رہنے کے لئے تاکہ متوازی وصحیح اسلامی معاشرے کا قیام ممکن ہوسکے تزکیہ نفس، تصفی قلب اور تجلی روح کا حصول ممکن ہوسکے، اور ہم جو اقرار کرتے ہیں اس اقرار کی تصدیق نصیب ہوسکے
واضح رہے کہ اقرار کا تعلق ظاہر سے ہے یعنی زبان سے ہے اور تصدیق کا تعلق باطن سے ہے یعنی قلب سے ہے ایک اصطلاح میں تصدیقِ قلب کو حق الیقین بھی کہتے ہیں۔ جوکہ ایقان کا کامل ترین مرتبہ ہے علم الیقین کا تعلق جاننے سے ہے اور عین الیقین کا تعلق ماننے سے ہے جبکہ حق الیقین کا تعلق پہچاننے سے ہے یعنی اس کا اول وآخر مشاہد ہ ہی ہے کلمہ توحید قائم صرف پڑھنے پڑھانے سے نہیں ہوتا بلکہ مومن کو اس کا نفاذ اپنے دل پر کرنا پڑتاہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خانقاہی نظام کو جن دعوتی اور اصلاحی مقاصد کے لیے ہمارے اسلاف نے متعارف کرایا تھا ان مقاصد اور اہداف سے ہم بہت دور چلے گئے تھے- اس نظام کی اصل روح ختم ہوگئی تھی اب صرف ایک رسم رہ گئی تھی۔ جس کو نسلا بعد نسل نبھایا جارہا تھا، افسوس کہ جن خانقاہوں سے کبھی ،،انا الحق ،،کا نعرئہ مستانہ سنائی دیا کرتا تھا وہاں حق کی تجلیات رخصت ہوئیں اب صرف ،،انا با،،قی رہ گئی تھی- ایسے میں سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ کے سرخیل حضرت سیدابوالحسن شاذلی میدان میں آئے اورانہوں نے بتایاکہ تبلیغ اسلام اور اصلاح معاشرہ میں خانقاہوں کا کردار اتنا عظیم اور روشن ہے کہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اصلاح امت کی کوئی بھی تاریخ خانقاہ کے بوریہ نشینوں اور صوفیاے کرام کے تذکرہ کے بغیر ادھوری ہے، بالخصوص بر صغیر ہندو پاک میں آج جو توحید وکلمہ کی صدائیں گونج رہی ہیں یہ انہیں خانقاہوں کی دعوتی اور تبلیغی مساعی کا نتیجہ ہیں، تصوف اور اہل تصوف کے سخت ترین مخالف بھی دبی زبان ہی سے ہی مگر اس تاریخی حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں-
موجودہ زمانے میں دعوت و تبلیغ کے پس منظر میں خانقاہی نظام کی افادیت مفقود نہیں ہوئی ہے بلکہ اور اجاگر ہوئی ہے- آج ہمیں اس نظام کی اتنی سخت ضرورت ہے جتنی شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی- ہاں خانقاہی نظام کا وہ کردار مفقود ہوگیا جو ماضی میں اس کا امتیاز رہا ہے- ورنہ چوتھی صدی ہجری سے لے کر آج تک دعوت و تبلیغ اور اصلاح احوال کا اس سے بہتر اور موثر طریقہ پیش نہیں کیا جاسکا-
سلسلہ نقشبندیہ شاذلیہ کے سرخیل سیدنورزمان شاذلی نے اپنے کردار و عمل سے اور اپنی،، نگاہِ کیمیا ء گر، ونگاہ بہ مثلِ سنگِ پارس سے مخلوق خدا کو اللہ کی وحدانیت کا پیغام دیا ہے ،ہم نشینی مقصودِ حیات کو بھی بے حجابی سے مشروط کیا ہے حقیر سی جوئے آب کو اپنی صحبت کی تاثیر سے دریائے تندو تیز بناکر ساحل نشینی سے کنارہ کش بنا کر نورِ وحدانیت کے بحرِ بے کنار کی عمیق گہرائیوں کا غواص باکمال بنا دیاہے ۔
گرمی مستی کردار سے طالبانِ مولی کو محفل گداز بنایاہے۔ صبحِ ازل کی مشاورتِ جبریل کے مطابق ان کاملین نے مخلوق کے سینوں میں دھڑکنے والے دلوں کو غلامی عقل سے نجات عطا فرما کر ان کے صدور کو قلب سیلم کی وسعتوں سے مالا مال کیا ہے ،شراکتِ میان حق وباطل سے باز رکھ کر مشاہداتِ انوارِ معرفت میں مستغرق کیاہے اور عالمِ انس کو پختگی کردار کا درس دیا ہے
آپ کی نگاہِ کرم کی بدولت جامِ معرفت سے یکساں فیضیاب ہوتے ہیں۔ آپ کی اِک نگاہِ التفات زنگ آلود قلوب کے لیے صیقل کاکام کرتی ہے اور دلوں سے حب ِ دنیا و ظلمت دور کر کے اِس میں معرفت ِالہی کا نور بھر دیتی ہے۔آپ اپنی نگاہِ کامل سے زنگ آلود قلوب کو منور فرماتے ہیں اور تزکیہ نفس کی دولت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ آپ پیروں کے پیرہیں جن کی شخصیت و عظمت کے سامنے بڑوں بڑوں نے سر خم کر دیئے اور جامِ معرفت کا لطف اٹھایا اور اٹھا رہے ہیں۔ آپ اپنی زبانِ درِ فشاں سے طالبانِ مولی کو امربالمعروف ونہی عن المنکر کی تعلیم دیتے اور اصلاحِ نفس کی تلقین کرتے ہیں۔ آپ کی تلقین کی بدولت لاکھوں طالبانِ مولی معرفت ِ الہی حاصل کر کے احکامِ الہی اور سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں زندگی گزار رہے ہیں۔
لفظ پھر لفظ ہیں جذبوں کو سمیٹوں کیونکر
میں کیسے کر پاوں اظہارِ عقیدت تجھ سے