د باران پہ دی موسم کی
تحریر: روح الامین نایابؔ
’’د باران پہ دی موسم کی‘‘ نازیہ درانی کی پشتو شاعری کا مجموعہ ہے جو مجھے میرے مہربان دوست پروفیسر عطاء الرحمان عطاؔ صاحب نے بطورِ تحفہ عطا کیا ہے۔ اس میں کوئی شک اور دو رائے نہیں کہ پشتو شاعری کی کتابوں کی ترتیب و تدوین میں عطاؔ صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اُن کی خدمات اور دوڑ دھوپ قابلِ تحسین اور قابلِ قدر ہیں۔ خاص کر خواتین شعرا کو متعارف کرانے اور اُن کی کتابوں کو چھاپنے اور اشاعت کے مشکل مرحلوں سے گزارنے کا سہرا صرف اور صرف عطاؔ صاحب کے سر ہے۔ یہ تمام کاوشیں پشتو زبان کی ترویج و ترقی کے زمرے میں شمار کی جائیں گی۔
نازیہؔ درانی کی پشتو شاعری کا یہ مجموعہ غزلیات، آزاد نظموں، قطعات اور انفرادی اشعار پر مشتمل ہے۔ کتاب کا خوبصورت ٹائٹل جاذبِ نظر ہے اور کیوں نہ ہو جو مراد خان جیسے زیرک آرٹسٹ کی خوبصورت فکر کا آئینہ دار ہے۔ مجموعہ ’’د باران پہ دی موسم کی‘‘ اگر تنہائی ہو، تو بے قرار اور بے چین دلوں کو مزید تڑپا دیتا ہے اور کبھی کبھی تو باہر کی بارش درد اور کرب کے راستے آنکھوں سے آنسو کی بارش بن جاتی ہے۔ یہاں نازیہؔ درانی نے غزل کے ایک مطلع میں کیا خوب کہا ہے:
د زڑہ پہ فصل چی د اوخکو می باران اوشی
ایلہ بیلہ می سود د خپل زڑہ د ارمان اوشی
کتاب میں بارش اور بارش کے موسم کا تو کوئی تذکرہ نہیں۔ البتہ رومان، ہجر اور مذاق کے لمحات کی برسات ضرور ہے۔ ناکام آرزوؤں، خواہشوں اور ساتھ گرم جذبوں کا ایک سمندر ہے جو ہر لمحے موجزن رہتا ہے۔
نازیہؔ درانی نے زیادہ تر غزلیات اور آزاد نظم پر طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا یہ تجربہ کسی حد تک کامیاب رہا ہے۔ خاص اور خوش آئند بات یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی سپردِ قلم کرچکی ہے، صاف صاف اور کسی لگی لپٹی کے بغیر کہہ چکی ہے۔ اپنے احساسات اور جذبات کو خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا چکی ہے۔ اپنی ایک آزاد نظم ’’درد محسوسول‘‘ یعنی درد کا احساس کرنااُس وقت ممکن ہے جب دکھ اور درد کی کیفیت خود پر طاری کی جائے۔ ذرا دیکھئے۔
د چا پہ زائے د ہغہ
درد محسوسول
او ہم ہغہ کیفیت
ہو بہو زانلہ کتل
لکہ ہغہ تہ ٹولہ دنیا تور تم وی
چند الفاظ میں پوری صورتحال کو سمودیا گیا ہے اور یہی نازیہؔ درانی کا کمال ہے۔ آزاد نظموں کے توسط سے نازیہؔ درانی نے کھل کر اپنے خیالات و احساسات کا اظہار کیا ہے۔ میں کیا ہوں؟ میں کون ہوں؟ میرا وجود کیا ہے؟ میری شناخت کیا ہے؟ وہ سماج اور معاشرے سے اپنی نظم ’’ماتہ جواب پکار دے‘‘ میں جواب مانگ رہی ہے۔ اس نظم میں ان سوالات کے تناظر میں عورت ذات کے بارے میں معاشرتی رویوں پر طنز کے نشتر چبھوئے گئے ہیں۔ اس میں جرأت کے ساتھ ساتھ بغاوت کا انداز بھی پوشیدہ ہے۔
ایک اور آزاد نظم ’’پختون‘‘ میں پوری پختون قوم کی ڈھال بن کر شاعرہ اُن قوتوں پر برس پڑی ہے جو پختون قوم کے احسانات اور خدمات کو فراموش کرکے الٹا اعتراضات اور خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ نظم کے آخری حصے میں ببانگ دہل فرماتی ہیں
پختون د ننگ نخان دے
سر ئی اوچت روخان دے
ستاسو پہ شان تالی سٹ
او نہ بی ایمان دے
پہ خپل کلتور پہ خپل
تاریخ یاد دے
مونگہ پری ویاڑ کوو
آزاد نظم کے ساتھ ساتھ نازیہؔ درانی نے غزل کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑ دیے ہیں عزم اور حوصلے کے ضمن میں غزل کا ایک شعر کچھ اس طرح ہے:
زہ پختنہ یم زان بہ بیا شتہ کوم
زہ بندیزونو بندیوانہ نہ کڑم
اس شعر میں اگر ایک جانب نازیہؔ درانی پختون ہونے پر فخر اور ناز کرتی ہے، تو دوسری جانب پختون سماج کے بندھنوں سے کھلی بغاوت بھی کرتی ہے۔ اسی احساس اور جذبوں کو ایک اور غزل کے دو اشعار میں بہت خوبصورت انداز میں سمودیا گیا ہے ،ملاحظہ ہوں:
زما رسمونو بندیزونو کے تڑلی جذبی
لگ خو تہ ہم زما د مینی ضرورت اوگورہ
ہر سومرہ سترگو کے زلیگی می رنڑا د اُمید
ختمہ می نہ شوہ ستا نہ طمع او فرصت اوگورہ
قارئین کرام! نازیہؔ درانی کی پوری کتاب مختلف جذباتی و احساساتی ٹچ لیے ہوئی ہے۔ غزلیات کے ساتھ ساتھ مختلف قلبی کیفیات، داخل و خارج کے ذکر اور جمالیاتی نظموں سے مزین ہے۔ نظموں میں خاص کر ’’دار التجا، حوصلہ راکوی، نوے احساس، عکسونہ، وختونہ، تکل‘‘ خاص قابلِ ذکر اور داد کے مستحق ہیں۔
میں اس شعری مجموعے پر نازیہ درانی کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں اور یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اُن کی یہ ادبی کاوشیں مستقبل میں اُن کی کامیابی کی نوید ثابت ہوں گی۔ اگر ایک طرف انسانی سماج میں ارتقا کے لیے عورت کا ہونا لازم و ملزوم ہے، تو دوسری جانب اسی سماج کو مردانہ سماج قرار دے کر عورت کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور پھر پختون معاشرہ میں عورت کے کردار کا تعین ہمیشہ سے متنازعہ بلکہ پست رہا ہے۔ ایسے کٹھن ماحول میں پختون عورت کے لیے شاعری کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اس کے لیے میں نازیہ درانی کے ساتھ منسلک خاندانی رشتوں کے تعاون کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور اُن کے جذبوں اور حوصلوں کو سلام کرتا ہوں۔ کیوں کہ اُن سب کا ساتھ دینے کے بغیر یہ ناممکن کام شائد کبھی ممکن نہ ہوتا۔
ایک سو باسٹھ صفحات پر مشتمل اس خوبصورت کتاب پر اباسین یوسف زء، شاکر اورکزئے، پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ شاہین، ڈاکٹر شیر زمان سیماب، ہمدرد اورکزے، اور پروفیسر عطاء الرحمان عطا صاحب نے اپنے قیمتی اور دانشورانہ تاثرات قلمبند کرکے کتاب کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ فن اور فنکار پر علمی اور فنی تبصروں نے کتاب کی اہمیت کو اجاگر کردیا ہے۔ اس حوالے سے معاشرے میں پختون عورت کے شعور، احساس اور ادبی ذوق کو اگر جلا ملتی ہے، تو پورا پختون سماج علم و فن کا روشن اور جگمگاتا مینارا بن جائے گا جس سے چاروں طرف روشنی کی کرنیں معکوس ہوجائیں گی اور تاریکیاں چھٹ جائیں گی۔ آخر میں نازیہؔ درانی کے ایک قطعہ کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
رنگ پسی مہ زہ زما مینہ کے رنڑا اوگورہ
چی ستا وجود پکے زلیگی دا بریخنا اوگورہ
د خپل خائست د دائری نہ لگ بہر را اوزہ
راشہ پہ تا پسی زما د زڑۂ درزا اوگورہ