ایک لکھاری کے لیے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحریر میں جن لوگوں کو مخاطب کر رہا ہوتا ہے، ان کی سطح پر جاکر الفاظ و تراکیب کا انتخاب کرے، تاکہ مدعا ان تک احسن طریقے سے پہنچایا جاسکے، لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ بسا اوقات ایسی کوشش میں خیالات و افکار کی اصلیت و معنویت بہت حد تک متاثر ہوجاتی ہے۔ آج کل پڑھنے والوں کی اکثریت، خصوصاً سوشل میڈیائی قارئین و ناظریں، گہرائی میں جاکر الفاظ و تراکیب کو سمجھنے کی تکلیف برداشت نہیں کرتے بلکہ ایسی تحریر پڑھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ البتہ جذباتی سطح پر جو چیز ان کو اپیل کررہی ہوتی ہے، اسی کو لے کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اصطلاحات کے حوالے سے تو مشکل اور بھی زیادہ ہے۔ ڈھیر ساری ایسی اصطلاحات ہوتی ہیں جن کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، لیکن ان کی سمجھ کم ہوتی ہے ۔ اس بات کا احساس یوں ہوا کہ سائنس میگزین کے چیف ایڈیٹر محترم علیم احمد صاحب نے فیس بک پر سوال اٹھایا کہ کیا سائنس جمود کا شکار ہوچکی ہے اور آیا ٹیکنالوجی ہی صرف ترقی پارہی ہے؟ ان کی فرینڈ لسٹ میں بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے صاحبان کا ردِعمل دیکھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مابین فرق ہی اکثریت کو معلوم نہیں۔ اس لیے ٹامک ٹوئیاں ہی مارتے چلے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے مَیں نے عرض کیا کہ سائنس کے متعلقات اور نئے علم کی نمو اسی شد و مد کے ساتھ برسرِ پیکار ہے، جتنی کچھ بازگشت آپ کو ٹیکنالوجی کی ترقی کی دکھائی دے رہی ہے۔ فرق البتہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی عوام و خواص کے استعمال کے دائرے میں آکر مقبول و معروف ٹھہرتی ہے، جب کہ سائنس
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
کے مصداق اگر مقبولیت پاتی بھی ہے، تو ایک مخصوص دائرہ میں، بہت کم عوامی مقبولیت کا امکان لیے ہوئے۔ درمیانی عملیت پسندوں کے وارے نیارے ہیں کہ سائنسی کاوشوں کی مصنوعات کو ٹیکنالوجی کے دائرے میں لاکر مقبولیت، پیسہ اور تعریف کے حق دار بن جاتے ہیں۔
قارئین، سطحیت کے حوالے سے مسئلہ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ پڑھنے والے کو اپنے متعلق عموماً یہ غلط فہمی رہتی ہے کہ اسے موضوعِ بحث کا گہرا اور تفصیلی علم ہے۔ اس حوالے سے ایڈم وٹز (Adam Waytz) اور روزن بلٹ (Rozenbilt) کے تجربات بہت اہم ہیں۔ ان تجربات کو علمی گہرائی کے سراب (Illusion of explanatory depth) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں ان صاحبان نے مختلف لوگوں سے عام طور پر استعمال میں آنے والی اشیا اور فطری مظاہر و واقعات جیسے کہ موسموں کے تغیرات، رات دن کی کایا پلٹ، جان داروں کا زندہ رہنا اور بڑھنا وغیرہ، کی بابت سوالات کیے ہیں کہ یہ لوگ ان اشیا کو کتنی بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ لوگوں میں اکثریت کا جواب ’’بہت بہتر طور پر سمجھنے‘‘ کا تھا۔ دوسرے مرحلے میں انہی لوگوں سے اسی چیز کے حوالے سے تفصیل طلب جوابات مانگے گئے تھے، جن کے جوابات غیر تسلی بخش اور حقائق کے منافی آئے۔ جب پہلا سوال انہی لوگوں سے انہی چیزوں کے متعلق دوبارہ دریافت کیا گیا، تو ان لوگوں نے ’’بہت بہتر طور پر سمجھنے‘‘ کی بجائے ’’کچھ کچھ سمجھنے‘‘ کا جواب منتخب کیا۔ یہی تجربہ پھر علم کے دوسرے شعبہ جات کے متعلق بھی کیا گیا۔ اس چھوٹے سے تجربے سے ان لوگوں پر اپنے معلومات کی سطحیت اور کمی کا ادراک ہوا۔
اسی طرح اگر ہم سوشل میڈیا(فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، یوٹیوب وغیرہ) اور انفو ٹینمنٹ الیکٹرانک میڈیا کا تجزیہ کرلیں، تو حجم کی زیادتی کی بنیاد پر ہمارا یہ گمان بن جاتا ہے کہ گویا ہمیں بہت علم حاصل ہوا ہے۔ حالاں کہ سب سے بنیادی سوال تو ان معلومات کے مستند اور غیر مستند، جانب داریت اور معروضیت اور جواز و عدم جوز کا ہوتا ہے۔ اس سے آگے جا کر پھر ان معلومات کو علم کے دائرے میں لانے کے لیے غوروفکر اور تجزیہ و تحلیل کے مراحل سے بھی گزارنا لازمی ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو ایک مخصوص میدان میں تھوڑا زیادہ علم پانے والے یا طریقۂ اظہار پانے والے کچھ اس طنزیہ، تضحیک سے بھرے اور مطلق انداز میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، گویا منصب اِفتا پر فائز ہوگئے ہوں اور ہر چیز پر فتوی دینا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ دوریوں کا باعث بن رہا ہے اور علم کی ترویج میں الٹا مانع ثابت ہورہا ہے ۔
ایک تحقیق میں تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ منطقی استدلال، حسِ مِزاح اور زبان دانی کے علم سے عاری افراد عموماً اپنے علم کے بارے میں ضرورت سے زیادہ خود اعتماد اور خوش فہم ہوتے ہیں۔
ہمیں اپنی علمی سطحیت کا ادراک تھوڑی سی تفصیل طلب کرنے پر ہی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی معلومات کے دائرے کو بڑھانے پر ہمہ وقت توجہ دینی چاہیے، تاکہ ہمیں چیزوں کی پیچیدگی کا اندازہ ہو اور ایک حقیقی تصورِ علم کی طرف سفر جاری و ساری ہو۔ اس عمل سے علم کے تکبر سے بھی نجات ملے گی اور سطحیت کے سراب سے بھی۔