تحرير: عائشہ خان
ملک بھر کی طرح سوات میں بھی عام انتخابات 2024 کی تیاریاں جاری ہیں تاہم ضلع سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کل 11 جنرل نشستوں کے لئے 425 امیدواروں میں کوئی ایک خاتون امیدوار بھی شامل نہیں ہے۔ جبکہ مخصوص سیٹوں کے لئے صرف چند خواتین امیدواروں نے ہی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
سوات کی خواتین سیاستدانوں کی رائے میں خود سیاسی جماعتوں میں اتنی جمہوریت نہیں کہ خواتین اور مردوں کو یکساں مواقع مہیا کر کے انتخابی میدان میں اتاریں، نہ پدرشاہی معاشرے میں لوگ خواتین کو سیاست، فیصلہ سازی اور قانون سازی میں مکمل کردار دینے کو تیار ہوتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں صوبائی اسمبلی کی آٹھ جنرل نشستوں کیلئے 292 جبکہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں کے لئے 133 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
دوسری جانب سوات سے چار یا پانچ خواتین نے صرف مخصوص نشستوں کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ جماعت اسلامی کی دو خواتین امیدواروں میں سے ایک نے قومی اسمبلی اور دوسری نے صوبائی اسمبلی کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ ایک اور خاتون نے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین اور دوسری خاتون نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشست کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن 2024 کے لیے کل 28 ہزار 626 کاغذات نامزدگی موصول ہوئے ہیں جن میں (11 فیصد) خواتین ہیں۔
سب سے زیادہ پیپرز پنجاب سے (48.3 فیصد) جمع کرائے گئے، سندھ دوسرے (22.7 فیصد)، خیبر پختونخوا تیسرے (18.4 فیصد)، بلوچستان (9.3 فیصد) چوتھے اور آخر میں اسلام آباد (1.3 فیصد) ہے۔
قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے لیے کل 7713 امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے جن میں 93.8 فیصد مرد اور 6.2 فیصد خواتین ہیں۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے کل 18546 امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے ہیں جن میں 95.6 فیصد مرد اور 4.4 فیصد خواتین ہیں۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 1824 خواتین نے کاغذات جمع کرائے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق سوات میں رجسٹرڈ ووٹوں کی کل تعداد 1463956 ہے جس میں مردوں کے ووٹ 798571 اور خواتین کے ووٹ 665385 ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں مختلف عہدوں پر فائز خواتین سیاستدان بھی جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں۔
پاکستان تحریک انصاف پارٹی سے تعلق رکھنے والی انبیا بی بی نے صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ مالاکنڈ ریجن میں پارٹی کی سینئر نائب صدر ہیں، اور انہوں نے پارٹی کے احتجاجوں میں شرکت بھی کی ہے جس کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمات بھی درج ہیں۔
جنرل نشستوں پر انتخاب لڑنے میں خواتین امیدواروں کی عدم دلچسپی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہاں حالات کی وجہ سے کوئی آگے نہیں آتا، ایک تو سیاسی صورتحال ہے اور دوسرا یہ کہ ایک عورت ہر جگہ پر عورت ہی ہے۔ سوات کے لوگوں میں پشتونولی کی وجہ سے بھی خواتین آگے نہیں آتیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کے لیے خاندانی مسائل بنائے جاتے ہیں۔ لوگ انھیں ذہنی اذیت دیتے ہیں۔ پارٹیوں میں ایسے امیدوار بھی ہیں جو ان نشستوں کو اپنی میراث سمجھتے ہیں: “مرد تنگ نظر ہیں۔ میں خود انتخابات میں حصہ لینا چاہتی تھی لیکن مجھے ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ ضلعی سطح پر یہ ایک خاص سوچ ہے کہ خواتین کو آگے نہیں آنے دیا جائے گا۔
سوات کی ایک اور خاتون سیاستدان، اور ن لیگی رہنما، مسرت احمد زیب کا کہنا تھا کہ سیاست میں حصہ لینے کے لیے خواتین میں کوئی کمی نہیں ہے۔ (لیکن) سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ خواتین آگے آئیں۔ مریم بی بی کے لیے کتنے مسائل ہیں۔ اگر بے نظیر بھٹو کو دیکھیں تو وہ بھی کسی کو پسند نہیں تھیں، یہ ہمارے معاشرے کے مردوں کے کمپلیکسز ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حیدر علی شاہ نے تسلیم کیا کہ پشتونوں میں جمہوریت اتنی مضبوط نہیں جتنی دوسرے لوگوں میں ہے۔ یقیناً خواتین کو جنرل نشستوں پر انتخابات لڑنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی روزِ اول سے خواتین کو سیاسی عمل میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کے خلاف اس حوالے سے پروپیگنڈے ہوئے۔ ہماری پارٹی کی پالیسی کے مطابق جنرل اور ریزرو نشستوں پر خواتین سے درخواستیں طلب کی گئیں لیکن بدقسمتی سے سوات سے ایک بھی خاتون نے جنرل یا ریزرو نشستوں کیلئے درخواست جمع نہیں کرائی۔
خواتین سیاست دانوں کے نزدیک پشتون معاشرے میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ خواتین سیاست میں، قانون سازی میں اور فیصلہ سازی میں حصہ لیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ آگے بڑھے تو خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں حصہ دینا چاہیے۔ زندگی اور ترقی کی دوڑ میں ہم بطور معاشرہ آج بھی پیچھے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم خواتین کو آگے نہیں آنے دیتے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ستمبر میں ووٹرز کی فہرست شائع کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2018 کے انتخابات کے وقت ووٹرز کی تعداد تقریباً 106 ملین تھی اور اس سال یہ تعداد تقریباً 127 ملین تک پہنچ گئی ہے۔
الیکشن کمیشن کی فہرست کے مطابق گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں ملک میں خواتین ووٹرز کی تعداد 46.7 ملین سے بڑھ کر 58.5 ملین ہو گئی ہے جو تمام ووٹرز کا 46 فیصد بنتی ہے۔
اس کے علاوہ مرد ووٹرز کی تعداد گزشتہ انتخابات میں 59.2 ملین تھی اور اس سال 68.5 ملین تک پہنچ گئی ہے جو تمام ووٹرز کا 54 فیصد ہے۔