اسلام آباد(ویب ڈیسک)ڈی آئی جی ہزارہ پولیس نے مانسہرہ زیادتی کیس پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بچے کی حالت اتنی خراب تھی سوچا کہ کیا کوئی انسان ایسا کرسکتا ہے۔ سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے تحفظ اطفال کا سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا جائزہ لیا گیا اور ان کے تدارک پر بات چیت کی گئی۔ ارکان نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات صرف مدرسوں تک محدود نہیں۔ سینیٹر ثمینہ سعید نے تجویز دی کہ بچوں سے ذیادتی کے ملزمان کو سخت سزائیں دی جائیں۔
جاوید عباسی نے کہا کہ ان واقعات میں 80 فی صد فیملی ،اساتذہ اور جاننے والے لوگ ملوث ہوتے ہیں،لوگ عزت کی خاطر چپ کر جاتے ہیں، بچوں کے تحفظ کے حوالے سے موجودہ قوانین کا جائزہ لیا جائے اور جامع رپورٹ تیار کر کے سینیٹ میں پیش کی جائے۔ روبینہ خالد نے کہا کہ غریب والدین کو پیسے دے کر صلح کر لی جاتی ہے، زیادتی کے بعد بچے کی موت ہو جاتی ہے تو پولیس اورلوگ اصل واقعے کودبا دیتے ہیں، بچوں سے زیادتی کے خلاف قوانین بنانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو ساتھ رکھا جائے۔
سوچا کہ کیا کوئی انسان ایسا کر سکتا ہے
ڈی آئی جی ہزارہ نے مانسہرہ واقعہ پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ لڑکوں سے زیادتی کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں، ایبٹ آباد میں گزشتہ سال 252 بچوں سے زیادتی کے کیسز رجسٹرڈ ہوئے، مانسہرہ کے مدرسے میں 120 بچے پڑھ رہے تھے، ملزم قاری شمس الدین سرکاری اسکول ٹیچر بھی ہے اور باقاعدہ تنخواہ لیتا ہے، بچے کو نہ صرف جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ قید کر کے مارا بھی گیا، بچے کی حالت اتنی خراب تھی سوچا کہ کیا کوئی انسان ایسا کر سکتا ہے، مدرسے کو بند کر دیا گیا ہے اور منتظم کو گرفتار کر رہے ہیں۔
غیر رجسٹرڈ مدارس کے ہاسٹلز ختم
ڈی آئی جی نے بتایا کہ ہم نے غیر رجسٹرڈ مدارس کے ہاسٹلز کو ختم کرنے کا کہہ دیا ہے، ہزارہ بار ایسوسی ایشن نے ملزم کا کیس نہ لڑنے کا متفقہ فیصلہ کیا ہے، جے یو آئی (ف) کا رہنما مفتی کفایت اللہ ملزم کو سپورٹ کرتا رہا ہے، مفتی کفایت نے الیکٹرونک میڈیا پر پریس کانفرس کی اور اس کا جو کردار رہا وہ میڈیا کے سامنے نہیں بتا سکتے۔
خیبرپختونخوا میں زیادتی میں اضافہ
پولیس بریفنگ کے دوران ملک بھر میں بچوں سے زیادتی کی تفصیلات کمیٹی میں پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ 2018 میں خیبر پختون خوا میں بچوں سے زیادتی کے 143 کیسز، اسلام آباد میں 130، بلوچستان میں 98 اور سندھ میں 1016 کیسز رجسٹرڈ ہوئے، خیبرپختونخوا میں 2019 میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا، بچوں سے زیادتی کرنے والے لوگ زیادہ تر بچوں کو جاننے والے ہی ہوتے ہیں، جاننے والے، پڑوسی اور دکاندار بچوں کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔