لاہور(ویب ڈیسک) سابق صدر پرویز مشرف کی سزا پر عملدرآمد رکوانے کے لئےلاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی فل بنچ نے درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ تفصیلات کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کی سزا پر عملدرآمد رکوانے کیلئے دائر درخواست پرجسٹس سید مظاہرعلی اکبرنقوی کی سربراہی میں فل بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ عدالت نے ناقص معاونت پر برہمی کا اظہار کیا۔ اظہر صدیق نےعدالت میں جواب دیا کہ آئین معطل کرنے کو آئین توڑنا نہیں کہا جاسکتا ۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سپیشل کورٹ نے فیصلہ کن بنیادوں پر دیا ہم اسے نہیں دیکھ سکتے،ہم صرف یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جو کارروائی شروع کی گئی وہ قانون کے مطابق تھی یا نہیں۔فل بینچ نے استفسار کیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کب عمل میں لائی گئی اور پرویز مشرف کے خلاف کمپلینٹ کب درج کی گئی تھی ۔ جس پر وفاق کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 18 نومبر 2013 کو خصوصی عدالت کی تشکیل ہو گئی تھی جبکہ 11دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف کمپلینٹ درج کی گئی تھی ۔لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی فل بنچ نے درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے گزشتہ روز رجوع کیا۔ پرویز مشرف کی جانب سے85صفحات پر مشتمل متفرق درخواست دائر کی گئی جس میں خصوصی عدالت کی تشکیل اور کارروائی کوچیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ خصوصی عدالت، پراسیکیوشن کیلئے وفاق سے منظوری نہیں لی گئی۔اور مقدمے میں پرویز مشرف کو دفاع کا موقع نہیں دیا گیا۔ ان کے 342کے بیان کے بغیر ٹرائل مکمل نہیں ہوسکتا تھا، انہیں خصوصی عدالت میں شہادت پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا ۔ ۔پرویز مشرف کے وکیل نے مزید مؤقف اپنایا کہ 2010 میں ترمیم کی گئی ہے اس حساب سے پہلے آئین کی معطلی غداری نہیں۔درخواست گزار نے استدعا کی کہ پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا سزائے موت دینےکا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
واضح رہے کہ 17دسمبر 2019 کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیا تھا ۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ پڑھ کر سنایا تھا۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مشرف نے 3نومبر 2007 کو آئین پامال کیا۔ خصوصی عدالت نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ ایک جج نے فیصلے سے اختلاف کیا۔