اشتہار

’مودی کے انتہا پسند عزائم بے نقاب ہو چکے، پاکستان خطے میں صرف امن کا پارٹنر ہو گا‘

اسلام آباد(ویب ڈیسک) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں افراد انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار ہیں۔ واشنگٹن میں مرکز برائے اسٹریٹجک اور بین الاقوامی مطالعات میں خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا بھارت کے ہندو انتہا پسند چہرے سے سیکیولرازم کا ماسک گر چکا ہے اور مودی کے انتہاپسند عزائم بے نقاب ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں لامتناہی انسانی بحران ہے، 80 لاکھ کشمیری 5 ماہ سے غیر انسانی لاک ڈاون کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کر کے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی، بھارت نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو دبانے کے لیے سخت پابندیاں نافذ کیں، مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن گزشتہ 5 ماہ سے جاری ہے، ہزاروں کشمیریوں کو قید رکھا گیا ہے، رابطوں کے ذرائع بند ہیں۔

بھارت کے انتہاپسندانہ اقدامات خطے میں امن کے لیے شدید خطرہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا مقبوضہ کشمیر کی صورت حال بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے، کشمیر کے بحران پر توجہ نہیں دی گئی تو یہ اسٹریٹجک صلاحیت کے حامل دو ممالک کے درمیان فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں طویل انٹرنیٹ بندش کی مثال کسی جمہوری ملک میں نہیں ملتی اور شہریت ترمیمی بل بھارت کے سیکولر تشخص پر سوالیہ نشان ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشتگری اور انتہاپسندانہ اقدامات خطے میں امن کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا بھارت میں روز کوئی نہ کوئی سیاستدان یا فوجی افسر پاکستان کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے لیکن دہشتگردی کی منصوبہ بندی اور الزام پاکستان پر ڈالنے کی سازشیں بے نقاب ہو چکی ہیں۔

ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت نظریات کے تباہ کن اثرات دنیا دیکھ رہی ہے
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم پُر امن ہمسایہ چاہتے ہیں لیکن امن کے لیے بھارت کو اپنی سالمیت یا کشمیر کی قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں اور بھارت نے ہماری پیشکش کو کمزوری سمجھا۔ وزیر خارجہ نے بتایا کہ وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ امن کے لیے بھارت ایک قدم اٹھائے گا تو پاکستان دو قدم آگے بڑھےگا لیکن بھارت نے روایتی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خیرسگالی کے جذبے کا مثبت جواب نہیں دیا، بھارتی رویے کے باعث گزشتہ سال دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امید تھی کہ الیکشن کے بعد بی جے پی حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی لیکن آر ایس ایس کے نظریات سے متاثر بی جے پی حکومت نے بھارت کو ہندو راشٹر بنانا شروع کیا، ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت نظریات کے تباہ کن اثرات دنیا دیکھ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا صدر ٹرمپ کو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تشویش ہے، ہم نے صدرٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کیا، امریکا جنوبی ایشیاء میں اثر و رسوخ رکھتا ہے، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیےکردار ادا کر سکتا ہے۔

اشتہار

پاکستان خطے میں کسی جنگ کا حصہ نہیں بنےگا
امریکا اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی پر بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس وقت کسی کسی کے سر پر ایران سوار ہے لیکن مشرقی وسطیٰ میں کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں ہے، کشیدگی میں کمی اور امن کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دورہ امریکا سے قبل ایران اور سعودی عرب کا دورہ کیا اور وزیراعظم کی ہدایت پر تینوں ممالک کو امن کا پیغام پہنچایا کہ پاکستان صرف امن کا پارٹنر ہو گا، خطے میں کسی جنگ کا حصہ نہیں بنےگا۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سعودی عرب اور ایران سے قریبی تعلقات ہیں، سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تاریخی تعلقات ہیں، ایران بھی ہمارا قریبی دوست اور ہمسایہ ملک ہے اور دونوں ممالک میں تاریخی اور ثقافتی روابط رہے ہیں۔

کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سےکشیدگی میں اضافہ ہو
ان کا کہنا تھا واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ ایرانی مفادات کو بھی دیکھتا رہا ہے، پاکستان مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام اور غلط فہمیوں کے خاتمے کا خواہاں ہے، وزیراعظم نے ستمبر میں فریقین سے رابطہ کر کے مسائل کے پُر امن حل کے لیے سہولت کاری کی پیشکش کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کی کشیدگی میں کمی کی خواہش کا خیر مقدم کرتے ہیں، اختلافات میں کمی کے لیے سفارتکاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، فریقین سے ملاقات میں زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے، کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سےکشیدگی میں اضافہ ہو۔ شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں مصالحتی عمل اہم موڑ میں داخل ہوچکا ہے، ان نازک حالات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان مضبوط اور مستحکم شراکت داری کی اشد ضرورت ہے۔

افغان مسئلےکا حل فوجی نہیں سیاسی ہے
ان کا کہنا تھا افغانستان میں امن کی اہمیت کو ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، افغان سانحہ 11 ستمبر 2001 سے نہیں، 1979 میں سویت مداخلت سےشروع ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بتایا کہ افغانستان میں کشیدگی کے باعث 50 لاکھ مہاجرین پاکستان آئے، افغانستان میں تصادم اور عدم استحکام سے پاکستانی عوام بھی شدید متاثر ہوئے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 70 ہزار اہلکاروں اور شہریوں نے قربانیاں دیں اور پاکستان کو 150 ارب ڈالرز کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا، پاکستان سمجھتا ہےکہ افغان مسئلےکا حل فوجی نہیں سیاسی ہے اور وزیراعظم عمران خان واحد لیڈر ہیں جنھوں نے افغانستان میں امن کے لیے سیاسی کوششوں کی وکالت کی۔ ان کا کہنا تھا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد امن کاحصول اور ترقی کافروغ ہے، معاشی استحکام، بہتر حکمرانی، کرپشن کا خاتمہ اور سماجی ترقی وزیراعظم پاکستان کے اولین ترجیحات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بنیادی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا تشخص بہتر ہوا ہے، پائیدار ترقی کے لیے بیرون سطح پر پر امن ماحول کے خواہاں ہیں۔

افغانستان میں امن پاکستان اور امریکا کے مفاد میں ہے
پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا پاکستان اور امریکا کے تعلقات انتہائی اہم ہیں، پاک امریکا تعلقات کو صرف افغانستان کے تناظر میں دیکھنا درست نہیں ہے لیکن افغانستان میں امن دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی حکام کہتے ہیں پاکستان امریکا کے ساتھ کام کر کے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے، یہ سچ ہے لیکن یہ بھی سچ ہےکہ امریکا بھی پاکستان کے ساتھ کام کر کے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور زراعت کے شعبےمیں استعداد بڑھانے میں مدد کی جب کہ سرد جنگ کے دوران پاکستان نے فیصلہ کن کردار ادا کیا، امریکا کی مدد کے بغیر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی ممکن نہیں تھی۔ اس کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹر لنزے گراہم اور امریکی نائب وزیر دفاع جان روڈ سے بھی ملاقاتیں کیں جس میں دو طرفہ تعلقات اور خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اشتہار

MQMMQM PakistanPMLNPPPPTiSHAH MEHMOOD QURAISHEE
Comments (0)
Add Comment

اشتہار