پشاور(ویب ڈیسک ) پشاورسے تعلق رکھنے والی 29 سالہ کترینہ کہتی ہیں ایک وقت تھا جب خواجہ سراؤں کے بالا خانے آباد رہتے تھے۔ میوزک پارٹیوں کی بکنگ کے لئے دن رات ان بالا خانوں میں لوگوں کی چہل پہل لگی رہتی تھی ۔اب اک آدھ تقریب میں جائیں بھی تو اکثرخالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں تو نوٹ کیسے نچھاور کریں گے؟
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے چئیرپرسن قمرنسیم کا کہنا ہے کہ سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کی تعداد 40 ہزار کے قریب ہے۔خواجہ سرا مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔یہی حالات رہے توخواجہ سرا بھیک مانگنے یا جسم فروشی پر مجبور ہوجائیں گے۔
خواجہ سرامہک اورمحبت کہتی ہیں کہ بعض علاقوں میں موسیقی کے پروگراموں پرپابندی بھی وبال جان بن گئی ہے۔شی میل ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کی صدر فرزانہ بھی پشاور اور گرد و نواح میں خواجہ سراؤں کے پروگراموں پر لگنے والی پابندیوں اور روزگار نہ ہونے پر پشاور چھوڑنے کا سوچنے لگی ہیں۔