تحریر : احسان حقانی
وزیرِ داخلہ احسن اقبال پر گولی چلنے کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے ۔ ایڈیشنل آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم رائے طاہر کی سربراہی میں تشکیل دی جانے والی ٹیم میں ایس ایس پی خالد شمیم اور ایس پی سی ٹی ڈی فیصل گلزار کے علاوہ آئی ایس آئی اور آئی بی سے بھی ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ تو پہلے ہی پیش کی جاچکی ہے ۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ مزید تحقیق کی آخر ضرورت کیا ہے ؟ بھرے جلسے میں فائرنگ ہوئی ہے ۔ ویڈیو فوٹیج موجود ہے ۔ گواہوں کی کوئی کمی نہیں۔ ملزم خود بھی اعتراف کر چکا ہے ، تو اس کے بعد معلوم نہیں کس بات کی تحقیق کی جا رہی ہے ؟ شاید یہ معلوم کیا جا رہا ہو کہ ملزم باوضو تھا یا بے وضو؟ یا یہ کہ وہ سر کے بل چل کر حملہ کرنے آیا تھا یا پاؤں کے بل چل کر آیا تھا؟ یا پھر شاید یہ تحقیق کی جائے گی کہ اتنے کھل کر ہونے والی واردات میں مجرم کو کس طرح محفوظ راستہ دیا جا سکتا ہے ؟
میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا۔
یہ واقعہ ایک اور اظہار ہے ۔ ثبوتوں کے لامتناہی انبار کے اوپر ایک اور ثبوت ہے کہ ہمارا نظامِ تفتیش شرمناک اور نظامِ عدل شرمناک ترین ہے۔
میں چیف جسٹس صاحب کی طرف سے پے در پے لیے جانے والے ازخود نوٹسوں کا پُرجوش حامی ہوں۔ عدالت نے جب بھی ازخود نوٹس لیا ہے ، تو غضب کرپشن کی عجب کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ کیونکہ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ عدالتی نظام میں انصاف کا تو تصور ہی ختم ہوا ہے اور اگر متاثرہ فریق کے ذہن میں انصاف کا کوئی تصور پایا بھی جائے ، تو عدالتوں ہی میں اس کا بلاتکار کیا جاتا ہے ۔
کسی بھی سطح کی عدالت میں جائیں، سالہا سال کے پرانے مقدموں کے کاغذوں کے ڈھیر آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ جج صاحب کو ہر گز، ہرررگز کوئی جلدی نہیں ہوتی کہ سادہ سی بات ہے ، ایک سماعت میں فیصلہ ہو سکتا ہے لیکن جج صاحب جتنا دماغ سماعت ملتوی کرنے کے لیے جواز کی تلاش میں کھپاتے ہیں، اگر اس کا دس فیصد تنازعہ کا حل نکالنے پر صرف کریں، تو مقدمات کے ڈھیر میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے ، لیکن جج صاحب کے لیے معمول کی بات ہوتی ہے ، بے شک متاثرہ فریق کی جان پر بنی ہو۔
عدالتوں میں انصاف کا تصور تڑپ تڑپ کر جان دے چکا ہے ۔ صرف پروسیجر پورا کرنا ہوتا ہے اور اس پر بھی سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ اس نظامِ عدل نام کی بدانتظامی میں اتنی سکت ہی نہیں کہ مجرم کو مجرم قرار دے کر سزا دے اور متاثرہ فریق کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی تلافی کرے ۔ البتہ بے گناہوں کی زندگی برباد کرنے کے لئے یہ مؤثر ترین نظام ہے ۔
جس تنازعہ کو گاؤں کے چار اَن پڑھ بوڑھے تیس منٹ میں اس طرح حل کرتے ہیں کہ دونوں فریق فیصلہ کو بہ اتفاق تسلیم کریں، وہی تنازعہ پڑھے لکھوں کی عدالت میں لے جائیں، تو بھول جائیں کہ فیصلہ آپ کی زندگی میں ہو جائے گا۔ جان، مال اور عزت، تینوں لٹا کر بھی آپ انصاف نہیں پا سکتے ۔
اس نظام کو نظامِ عدل کہنا، عدالت اور انصاف دونوں کی توہین ہے۔
تو مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اتنے گنجلک، بے نتیجہ اور غیر فعال عدالتی نظام کے ہوتے ہوئے چیف جسٹس صاحب دوسرے اداروں کو بہتر بنانے کے لیے وقت کیسے نکال لیتے ہیں؟