اسلام آباد(ویب ڈیسک) قرضوں پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ تیار کر لی گئی جو آئندہ ہفتے وزیراعظم دفتر میں داخل کی جائے گی۔ رپورٹ کو تیار کر نے میں 9 ماہ کا عرصہ لگا جس میں بتایا گیا ہےکہ 2 درجن اداروں سے وابستہ 300 افراد نے 2008 سے 2018 کے درمیان لیے گئے اربوں روپے کے غیرملکی قرضوں کا غلط استعمال کیا۔ انکوائری کمیشن آن ڈیٹ کی رپورٹ میں کئی ترقیاتی منصوبوں میں کک بیکس، اختیارات کے ناجائزاستعمال، بڑے پیمانے پر خورد برد اور چوری کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کمیشن نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ قرضوں کی مد میں پیسہ کس طرح مشکوک انداز میں سرکاری افسران، پرائیویٹ کنٹریکٹرز ، سیاست دانوں اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار حکومت میں وزراکے نجی اکاونٹس میں منتقل ہوا۔
انکوائری کمیشن نے 23 اداروں سے وابستہ 200 اہم شخصیات کی نشاندہی کی ہے جنہوں نے 220 نجی اکاؤنٹس کے ذریعے 150 منصوبوں سے 450 ارب روپے کی خطیر منتقلیاں کیں، ان میں سے کچھ کی وفاداریاں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے بتائی گئی ہیں۔ انکوائری کمیشن کو انکوائری ایکٹ کے تحت حکومت کے حاصل کردہ 420 غیر ملکی قرضوں کا مکمل رکارڈ حاصل ہوگیا ہے۔ کچھ متنازع سمجھے جا نے والے پروجیکٹس پر انکوائری کمیشن کی خاص توجہ رہی۔ جیسے بی آر ٹی پشاور پروجیکٹ جس کی لاگت 30 ارب روپے سے بڑھ کر 75 ارب روپے اور نیلم، جہلم ہائیڈرو پاور پروہجیکٹ کی لاگت 84 ارب روپے سے بڑھ کر 500 ارب روپے تک جاپہنچی۔ کمیشن نے سرکاری قرضوں اور واجبات میں اضافوں کا بھی جائزہ لیا جو 2008 میں 6690 ارب روپے سے بڑھ کر ستمبر 2018 تک 30846 ارب روپے ہو گئے،
کمیشن نے 2008 سے 2018 تک 1020 منصوبوں کی تفصیلات حاصل کیں ۔ کچھ بڑے پروجیکٹس جو کمیشن کے تحت جانچ پڑتال کی زد میں آئے ان میں منگلا ڈیم کی سطح بلند کرنے کے علاوہ رحیم یار خان، چشتیاں، وہاڑی، گجرات، شالیمار ، کے وی ٹی لائن، دیامر بھاشا ڈیم، گومل زام ڈیم، پٹ فیدر کنال کی توسیع، شادی کور ڈیم کی تعمیر اور ضلع گوادر کے ساٹھ ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔ انکوائری کمیشن نے جن منصوبوں کی تفصیلات حاصل کیں ان میں پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے25، لواری ٹنل سمیت مواصلات کے 85 منصوبے شامل ہیں۔ اسی طرح پورٹس اینڈ شپنگ اور ریلوے کے 56، ایچ ای سی کے 285 ، صحت سے متعلق 78 ، آئی ٹی کے 203 اور دیگر محکموں اوروزارتوں کے منصوبے شامل ہیں۔