ریاست کے ابتدائی سالوں میں سیدو شریف اپنے مقدمات یا دوسرے امور کے لیے آنے والے لوگ بلا تخصیص سرکاری مہمان خانے یا بڑینگل میں کھانا کھاتے تھے۔ اس لیے سیدو کے بازار میں کوئی ہوٹل وغیرہ نہیں تھا۔ زیادہ تر لوگ چاہے مقامی ہوں یا بیرونی، سیدوبابا کے لنگر خانے سے بھی استفادہ کرسکتے تھے۔ بعد میں جب مقد مات اور دیگر معاملات کے لیے لوگوں کی آمد و رفت بڑھنے لگی، تو مخصوص مراعات یافتہ خوانین کے علاوہ باقی لوگ یا تو اپنے دوستوں کے ہاں قیام کرتے یا واپس اپنے علاقوں کو جاتے تھے۔ تب سیدوشریف کے مختصر سے بازار میں ہوٹل کھلنے لگے، مگر ہمارے بچپن میں ان کی تعداد بہت محدود رہی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے بازار میں صرف تین ہوٹل چل رہے تھے۔ ایک تو پولیس سٹیشن کے قریب ایک لمبے برآمدے اور چند کمروں پر مشتمل ٹین اور کڑیوں کی چھت والی عمارت میں واقع تھا۔ یہ سرکاری عمارت تھی اور کرایہ پر دی گئی تھی۔ اس کے عقب میں بھی ایک آدھ کمرہ تھا جس میں چرس کا ٹھیکہ چل رہا تھا۔ بازار کے اندر کشمیر بیکری سے متصل ایک ہوٹل تھا جس کو ایک سرخ و سفید شخص چلا رہا تھا اس کا نام یاد نہیں آرہا مگر یہ ’’سرخ جرمن‘‘ یا ’’سور جرمن‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ دوسرا ہوٹل ذرا آگے تھا جس کا مالک ’’تور جرمن‘‘ یا ’’کالا جرمن‘‘ کہلاتا تھا۔ ایک چھوٹا سا چائے کا کھوکھا محمود ماما چلاتے تھے جو ’’خوڑگئی‘‘ کی دوسری جانب واقع تھا۔
ان دونوں ہوٹلوں کے علاوہ پورے سیدو شریف میں کوئی طعام گاہ نہیں تھی۔ ہوٹلوں کی عمارت بہت سادہ تھی۔ یوں سمجھو ایک لمبی چوڑی، لکڑیوں کے ستونوں، شہتیروں اور کڑیوں پر مشتمل تھی، جس میں کوئی دروازہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ سامنے کی طرف مکمل کھلا۔ صرف سائیڈ اور عقب کی دیواریں ہوتی تھیں۔ اندر بہت سی چارپائیاں پڑی رہتی تھیں اور لکڑی کی میلی کچیلی میزیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک کونے میں کچھ نہایت میلی رضائیاں اوپر تلے ڈھیر کیے ہوئی تھیں۔ سامنے کے رُخ ایک چبوترے میں کئی چولھے بنے ہوئے تھے، جن میں لکڑی جلتی رہتی تھی۔ دھوئیں اور مسلسل استعمال سے کالے سیاہ المونیم کے برتن اور چائے دانیاں ہوتی تھیں۔ برتن اندر سے بھی گندے دکھائی دیتے تھے۔ انہی میں وہ لوگ سالن وغیرہ پکاتے تھے۔ چائے کی پیالیاں بھی مسلسل استعمال سے رنگ و روغن کھوچکی تھیں۔ کسی کی کنڈی ٹوٹی ہوئی ہے، تو کسی کے کنارے میں دراڑ پڑگئی ہے۔ پھر بھی یہاں پر دن کے وقت کافی رونق رہا کرتی تھی۔ اپر سوات، بونیر کوہستان اور شانگلہ سے آنے والے یا تو ان ہی ہوٹلوں میں کھاتے تھے، یا مینگورہ میں تیزی سے اُبھرنے والی اور نسبتاً مہنگی طعام گاہوں میں جاتے تھے، مگر وہاں بھی یہ سب کچھ بعد میں ممکن ہوسکا۔ ہمارے بچپن میں مینگورہ میں معدودے چند ہوٹل تھے، جن میں ملک ہوٹل سر فہرست تھا۔ اس کے بعد زمیندار ہوٹل، معنی دار ہوٹل اور تاج ہوٹل کے نام آتے تھے۔ سیدو شریف کے ان دو ہوٹلوں میں بعد از دوپہر مقامی حضرات ہی نظر آتے تھے جو رات گئے تک گپ شپ لگاتے تھے۔ بے فکری کا دور تھا۔ چوراُچکے کا ڈر نہیں تھا۔ ہوٹلوں کو بند کرکے تالا لگانے کا کوئی انتظام تھا، نہ ضرورت۔ کیوں کہ چوتھا رُخ تو مکمل کھلا ہوتا تھا۔
بعد میں آہستہ آہستہ بازار بڑھنے لگا۔ محمود ماما نے بھی ایک طعام خانہ کھولا۔ یہ ہماری جوانی کے ابتدائی دن تھے۔ سیدو بابا کے مسجد کے قریب شبیر احمد نامی شخص نے ’’گلستان کیفے‘‘ کے نام سے ایک طعام گاہ کھولی۔ یہ نوجوانوں میں بہت تیزی سے مقبول ہوا اور پھر زوال پذیر بھی۔ اس میں اس دور کی مناسبت سے ایک جدید ریڈیو گرام رکھا ہوتا تھا۔ اس پر بیک وقت کئی ریکارڈ ڈسک اوپر تلے رکھے جاتے تھے، تو وہ ایک خود کار سسٹم سے ایک کے بعد ایک سارے ریکارڈ چلا دیتا۔ پھر چرس کے عادی نوجوانوں کی مسلسل موجودگی سے اس کا ماحول خراب ہوتا گیا۔ ذاتی طور میرا بھی اس کیفے سے ایک ناخوشگوار واقعہ وابستہ ہے، جس کو یاد کرکے آج بھی مجھے ندامت محسوس ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہ اگر میرے والد صاحب کی عزت و احترام کی برکت شاملِ حال نہ ہوتی، تو میرے ساتھ کیا کچھ نہ ہوتا۔
ابتدا میں ہسپتالوں میں داخل مریضوں کے لیے کھانا ریاست کی طرف سے ملتا تھا جس میں ایک تیماردار کو بھی شامل کیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا۔ پھر صرف ٹی بی کے مریضوں کو مرغ انڈے اور فروٹ ملنے لگا، تو ہسپتالوں کے سامنے سڑک کی دوسرے جانب کھانا فراہم کرنے والے کھوکھے بن گئے۔ سیدوشریف ہسپتال کے سامنے سب سے پہلے چائے کی دوکان افسر آباد ہی کے رہنے والے ’’میاں جان‘‘ نے کھولی۔ یہ پہلے سیدوشریف اور مینگورہ کے درمیان ٹانگا چلاتے تھے۔ پھر سیدوشریف ہی کے رحمانی گل نے ٹیلیگراف آفس کے قریب ہوٹل کھولا۔ یہ جب خوب چلنے لگے، تو دو تین اور بھی ہوٹل کھل گئے۔ سنٹرل ہسپتال کے مقابل ایک ہوٹل تو سرکاری دوکانوں میں کھل گیا۔ ان دوکانوں میں بعد ازاں میڈیکل سٹور کھل گئے۔
اب واپس چلتے ہیں۔ بچپن کے دور میں شریف اللہ نامی قصاب نے تور جرمن کے پڑوس میں کڑاہی لگا کر کباب کی دوکان کھولی۔ ارزانی اتنی تھی کہ آپ کو ایک آنے کا کباب بھی ملتا تھا۔ سردیوں میں اس کے ہاں بھیڑ لگی رہتی تھی۔ البتہ گرمیوں میں کاروبار مکمل طور پر بند رہتا تھا اور کڑاہی ہٹاکر مٹی کا بنا ہوا آتش دان مسمار کیا جاتا تھا۔
یہ سب کچھ جیسے بھی تھا مگر پُرسکون اور خوش گوار ہوا کرتا تھا۔ نہ کوئی اضطراب، نہ بے چینی، نہ چوری چکاری، نہ قتل و غارت گری اور نہ دہشت گردی۔ لوگوں میں پیار و محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا رشتہ ہوا کرتا تھا۔
ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہماری یہ جنت ارضی بہت جلد اُجڑنے والی ہے اور ہمیں بھیڑیے کھانے والےہیں۔