تحریر : ناصرعالم
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں پیشہ ور بھیک منگوں کی بھر مار نے ضلع کے تمام علاقوں پر یلغار کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع کررکھاہے ،عید کی آمد پر غیرمقامی اور خانہ بدوش پیشہ ورگداگروں نے مینگورہ شہر کا رخ کرلیاہے جوبازاروں،مارکیٹوں اورگلی کوچوں میں گھومتے پھرتے ،مساجد کے سامنے بیٹھے ودیگرمقامات پر یہ گداگر منڈلاتے اورمختلف صدائیں لگاتے نظرآرہے ہیں جو سرراہ لوگوں کو زبردستی روک کر ان سے بھیک مانگ رہے ہیں ،ان کے بھیک مانگنے کا طریقہ بھی کافی عجیب ہے ،ایسا لگتاہے کہ آپ کے سامنے کھڑا بھکاری بھیک نہیں بلکہ غنڈہ ٹیکس وصول کررہاہے ،اس وقت مقابل کی جو حالت ہوجاتی ہے وہ سب کو معلوم ہے کیونکہ یہاں کے لوگ روز ان تکلیف دہ مراحل سے گزرتے ہیں،یہاں پر ڈھیرے جمائے پیشہ ور بھکارنیں بن بلائے مہمان بن کر گھروں میں گھس جاتی اور بھیک مانگتی ہیں ،نامانوس زبان بولنے والی ان بھکارنوں کا رویہ بھی انتہائی نامناسب ہے جوگھروں میں موجود عورتوں کوہرا ساں اور ذہنی کوفت میں مبتلاکردیتی ہیں اوروصولی کرکے عجیب اورسمجھ میں نہ آنے والے الفاظ ادا کرکے چلی جاتی ہیں،اس وقت پورے مینگورہ شہر میں یہ گداگر چھائے ہوئے ہیں جس کے سبب مقامی لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے،یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ پیشہ وربھکارنیں معصوم بچوں کوکڑی دھوپ میں سڑک کے کنارے لٹاکر بھیک مانگتی ہیں مگراس پر حکام نے خاموشی اختیار کررکھی ہے اوربچوں کے حقوق اور تحفظ کے علمبردارتنظیمیں تماشادیکھ رہی ہیں۔
عام دنوں میں عموماََ اورماہ رمضان وعید کی آمد پر خصوصاََ دیگر علاقوں سے پیشہ ورگداگرمینگورہ شہر اور آس پاس کے دیگر مقامات کا رخ کرکے یہاں پر ڈھیرے جما لیتے ہیں جس میں اکثریت عورتوں کی ہوتی ہے جو سر راہ لوگوں کو روک کران سے بھیک مانگتی ہیںیا سڑک کے کنارے بچوں کو لٹاکر اورانہیں بیمار ظاہرکرکے بھیک مانگتی نظر آرہی ہیں،اس کے علاوہ یہ بھکاری عورتیں گھروں میں گھس کر وہاں پر موجود خواتین کو پریشان کرتی ہیں اور مختلف طریقوں سے ان سے رقم بٹورلیتی ہیں جس گھر میں یہ بھکارنیں داخل ہوتی ہیں تو وہاں سے پیسے وصول کئے بغیرباہر بالکل نہیں نکلتیں جس کے سبب گھروالوں کو مجبوراََ انہیں بھیک دینا پڑتاہے بلکہ جان چھڑانے کیلئے رقم دینا پڑتی ہے یہ لوگ پچاس اورسو روپے سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک طرح سے ان گداگروں نے اپنے لئے بھیک کے ریٹ مقررکھے ہیں،مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھکاری عورتیں گھروں اوران کے بھکاری مرد دکانوں سے چوریاں بھی کرتے ہیں اورانہیں جہاں کہیں بھی کوئی چیز پڑی نظر آئے اٹھاکر لے جاتے ہیں تاہم مقامی لوگ مجبوراََ ان کے نخرے برداشت کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو معاشرہ میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جارہاہے بعض لوگ تو انہیں بدعائیں بھی دے رہے ہیں اورلگتاہے کہ ان بھکاریوں کو کسی کی بددعالگی ہے کہ ان کی عورتیں ،جوان لڑکیاں ،بچے بچیاں اور مرد معاشرہ میں کوئی باعزت روزگار کرتے نظر نہیں آرہے بلکہ بھیک ہی مانگتے نظر آرہے ہیں بقول شاعر،
تجھے ہو نصیب گداگری تیرادست ناز دراز ہو
یہی بددعا ہے کہ فتنہ گر تیرا حسن سہرا نوازہو
اس کے علاوہ ان کے ہٹے گٹے مرد بھی بازاروں میں مختلف طریقوں سے بھیک مانگتے باالفاظ دیگرجگاٹیکس وصول کرتے نظر آرہے ہیں،ان لوگوں کی زبان بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آتی،سماجی حلقوں کا کہناہے کہ پیشہ ور بھکارنیں معصوم بچوں کو کڑی دھوپ میں سڑک کے کنارے لٹا کراورانہیں بیمار ظاہر کرکے ان کے ذریعے بھیک مانگتی ہیں مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بچوں کے حقوق اورانہیں تحفظ دینے کی دعویدارتنظیموں نے تاحال اس طرف توجہ تک نہیں دی ہے ،ایک طرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہورہی اوردوسری طرف ذمہ دارخاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں،ذمہ داروں کی مسلسل لاپرواہی،عدم توجہی اورنظر اندازی کی وجہ سے سوات بھر میں گداگری نے ایک مافیا اورپیشے کی شکل اختیار کررکھی ہے جس کے دیکھا دیکھی یہاں پر اچھے بھلے لوگوں سمیت نشے کے عادی افراد نے بھی یہ پیشہ اختیار کرلیا ہے ۔
مینگورہ شہر اور آس پاس کے دیگر علاقوں میں پیشہ ورگداگرجن میں ہر عمر کے مرد ،عورتیں ،بچے اور بچیاں شامل ہیں گروپوں کی شکل میں گھوم پھراورراہگیروں کو گھیرے میں لے کران سے بھیک کی شکل میں ٹیکس وصول کرکے دوسرے راہگیروں کو گھیرنے کیلئے آگے بڑ ھ جاتے ہیں ،مینگورہ شہرکے بازاروں ،مارکیٹوں اوردیگر پرہجوم مقامات سمیت گلی کوچوں میں روز یہ تماشادیکھنے کو ملتا ہے ،عوام بھی یہ تماشا دیکھ رہے ہیں اور حکام بھی یہ تماشا دیکھ رہے ہیں مگر کسی نے اس تماشے کو ختم کرنے کیلئے تاحال کسی قسم کا اقدام نہیں اٹھایا ،سب کو اس طرح خاموش تماشائی کا کرداراداکرتے ہوئے دیکھ کر پیشہ ور گداگروں کے حوصلے مزید بڑ ھ گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب ان پر بھکاریوں کاکم اور راہزنوں کازیادہ گمان ہوتا ہے اورمقامی لوگ انہیں سامنے سے آتے ہوئے دیکھ کر دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں تاہم بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں جو اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ لوگ یہ پیشہ ور گداگرکہاں سے آتے ہیں اور کہاں کے رہنے والے ہیں جنہوں نے مقامی لوگوں کی ناک میں دم کررکھاہے جو سیزن گزار کر بڑی خاموشی کے ساتھ کچھ عرصہ کیلئے واپس چلے جاتے ہیں،مقامی لوگوں نے اپیل کی ہے کہ انتظامیہ،پولیس اور دیگر حکام مینگورہ شہر اور ضلع سوات کے دیگر علاقوں میں ڈھیرے جمائے اور منڈلاتے ہوئے نظر آنے والے ان پیشہ ور گداگروں کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لاکر انہیں عید سے قبل ضلع بدرکرکے مقامی لوگوں کو اس مصیبت سے چھٹکارا دلائیں۔