کالام (ایچ ایم کالامی) – کالام اور کمراٹ میں بولی جانے والی مادری زبان “گاؤری” کے تحفظ اور فروغ کے حوالے سے ایک روزہ سیمینار منعقد کیا گیا، جس میں مقامی ادیبوں، دانشوروں، علمائے کرام، اور لکھاریوں نے شرکت کی۔
سیمینار کا انعقاد مقامی فلاحی تنظیم گاؤری کمیونٹی ڈیولپمنٹ نے کیا، جس کا مقصد مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر گاؤری زبان کو درپیش چیلنجز اور اس کے فروغ کے لیے عملی اقدامات پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔
تقریب میں مولانا سیف الرحمن، حافظ ابن روزی، کالام یوتھ موومنٹ کے صدر عبداللہ شہزاد، ڈاکٹر محمد رحمان اور دیگر شخصیات نے شرکت کی۔
گاؤری زبان کے فروغ کے لیے حکمت عملی مرتب
گاؤری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروگرام کے پروگرام منیجر محمد نبی اور گاؤری زبان کے محقق و مصنف عبدالعلی نے گاؤری زبان پر ہونے والی مقامی سطح کی تحقیق، تصانیف اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کا جائزہ لیا۔ ماہرین نے کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے زبان کے فروغ کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
حکومتی عدم توجہی پر تشویش
شرکاء نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے اور صوبائی حکومت کی جانب سے بل کی منظوری کے باوجود گاؤری زبان کو تاحال نصابِ تعلیم کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ ماہرین نے زور دیا کہ حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے، بصورت دیگر یہ زبان معدومیت کے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔
زبان کی معدومیت ثقافت کے زوال کا سبب بنتی ہے
محققین اور مصنفین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی زبان کی معدومیت صرف الفاظ کے ختم ہونے کا نام نہیں، بلکہ اس سے وابستہ تاریخ، ثقافت، اور تہذیب بھی ختم ہو جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الحال مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت گاؤری زبان کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن اصل امتحان یہ ہے کہ حکومت مادری زبانوں کے عالمی دن پر ایسی ناپید ہوتی زبانوں کے تحفظ کے لیے کیا عملی اقدامات اٹھاتی ہے۔