جوں ہی رمضان وغیرہ کی آمد ہوتی ہے، ماہِ مبارک کی برکات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اصلاح کے لیے اور کچھ لوگ بدنیتی سے کہنا شروع ہوجاتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں تو تہواروں پر چیزیں سستی ہو جاتی ہیں اور اسلام کے نام پر بنے ملک میں مہنگائی کا طوفان سر اٹھا لیتا ہے۔ یہاں تک تو بات درست ہے، لیکن جب ہم اس بنیاد پر اپنے ملک، قوم اور معاشرے کو طعنے دینا شروع کرتے ہیں، تو یہ یہاں مجھے اختلاف کی اجازت ہونی چاہیے۔
آپ اپنی بات کرلیں۔ کیا آپ اتنے برے ہیں کہ رمضان اور دیگر تہواروں پر دس کی چیز بیس میں فروخت کریں گے؟
اور کیا اس آزاد منڈی کی تجارت میں آپ اپنی مرضی سے آٹے، دودھ، پھل یا سبزی وغیرہ کی قیمت بڑھا سکتے ہیں؟ کاروبار کی تھوڑی بہت شد بد رکھنے والے کا جواب نفی میں ہوگا۔ آزمائش شرط ہے۔
رمضان میں واقعی چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم بہت برے لوگ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کچھ تو غریب ہیں اور کچھ اپنے اجتماعی معاملات کے خراب منتظم۔
فری مارکیٹ کی الف بے سے واقف آدمی جانتا ہے کہ ہمارے ہاں جو آدمی مہینے میں دو کلو دال، چاول یا چینی استعمال کرتا ہے، وہ رمضان کی آمد پر پانچ کلو خریدتا ہے۔ دو کلو خوردنی تیل استعمال کرنے والا پانچ کلو تیل خریدنے لگتا ہے۔ جو آدمی عام طور پر پھل کھاتا ہی نہیں، وہ بھی پھلوں کا خریدار ہوتا ہے۔ اس طرح منڈی میں اشیائے خور و نوش کی طلب دوگنے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور رسد میں بہتری کا ہم نے کوئی انتظام نہیں کیا ہوتا۔
مانتا ہوں کہ کچھ لوگ اس صورت حال سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہوں گے لیکن گنتی کے چند منافع خوروں کی وجہ سے ہم سخاوت، خدا خوفی اور غریب پروری کے اس غیر معمولی عمل کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو رمضان، عید اور دوسرے تہواروں سے منسلک ہے۔
ٹھیک ہے کہ رمضان میں ہمارے کچھ لوگوں سے خود غرضی سرزد ہوتی ہے لیکن اس حقیقت کو بھی تو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اس مہینے بہت سے مالداروں کی تجوریاں کھل جاتی ہیں۔ زکوٰۃ کی مد میں غریبوں کی جو نقد مدد ہوتی ہے، وہ اربوں روپے کی بات ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 290 ارب روپے سالانہ صرف بنکوں میں موجود نقدی سے 17 ارب روپے زکوٰۃ حاصل ہوتی ہے، جس کے خرچ میں کرپشن بھی ہوتی ہوگی لیکن بیت المال اور زکوٰۃ کمیٹیوں کے ذریعے ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں ضرورت مندوں کی مدد بھی ہو جاتی ہے۔
حکومت رمضان کے موقع پر 1.7 بلین روپے کی ریلیف صرف یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے دیتی ہے اور ضرورت کی ایک ہزار قسم کی اشیا کی قیمتیں کسی نہ کسی حد تک کم ہو جاتی ہیں۔ نجی شعبہ بھی اپنی اشیا پر طرح طرح کی رمضان سکیمیں جاری کرتا ہے اور علامتی سہی، رمضان کے موقع پر اپنی نیک نیتی کا اظہار کرتا ہے۔ باقی صوبوں کا علم نہیں لیکن پنجاب میں سستے بازاروں کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس رمضان میں بھی حکومت پنجاب کی طرف سے 8 سو روپے والا آٹا 5 سو روپے میں ہر دکان پر دستیاب رہا ہے۔
معاشرتی سطح پر نظر ڈالیں، تو آپ کو شاید ہی کوئی ایسی مسجد نظر آئے جہاں روزانہ درجنوں افراد کے لیے مفت اور پُرتکلف افطار کا انتظام نہ ہو۔ جگہ جگہ مفت دسترخوان بچھے ہوتے ہیں۔ ہزاروں لوگ مفت افطار کرتے ہیں۔ گلی کوچوں پر نظر ڈالیں، تو افطار سے پہلے عید کا سماں ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے، چھوٹی چھوٹی پلیٹیں اور طرح طرح کے کھانے، رمضان المبارک کے چٹخارے ہر گھر میں تقسیم ہو رہے ہوتے ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خامیاں تو واقعی ہم میں بہت ہیں لیکن اپنی خوبیوں کا عدم احساس بھی ایک خامی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔