اشتہار

یہ دیس ہے دادی بلورستانی کا (تیسرا حصہ)


افتخار خان اس کارواں کے منتظم ہیں، یعنی دس عدد سروں کے درد کا مداوا انہوں نے کرنا ہے۔ کوئی فروٹ کا مطالبہ کرے، وہ فوری بشام کے باغات کا تازہ امرود اس کے سامنے پیش نہ کرے، تو پھر کہنا۔ پیٹ یا سر درد کی شکایت ہو اور دو تین عدد مختلف اقسام کی گولیوں کے پلتے اپنے سامنے پڑے پائیں اور چلتے بنیں۔ وہ عمر میں ہیں چھوٹے، کام بڑے کرنا سوچتے ہیں اور وہ خود بخود ہو جاتے ہیں۔ اس تفریحی پروگرام کو منظم کرنے اور دیگر انتظامات کرنے کا سہرا، اُن کے سر ہے۔ آپ کا حلقۂ یاراں شرقاً غرباً اور شمالاً جنوباً پھیلا ہے۔ اپنا ایک این جی اوچلا رہے ہیں۔ نام ہے اس کا ’’سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ سوسائٹی‘‘ (ایس ڈی ایس)۔ اس کو دیکھیں گے، تو رواں دواں اور متحرک ہی دیکھیں گے۔ موبائل پر باتیں کرتے دیکھیں گے۔ شور شرابے، غل غپاڑے کرتے دیکھیں گے۔ محبت کے گیت گاتے دیکھیں گے۔ کہیں بیٹھے ہوئے ملیں اور خاموش ہوں، تو سمجھیں کہ دوا کی بجائے دُعا کی ضرورت زیادہ شدیدہے۔
معذرت، آپ کی طرح ہمیں بھی گلگت جلدی پہنچنے اور وہاں کے متعلق کچھ جاننے کی خواہش ہے لیکن سرِ راہ چلتے چلتے، خود بھی کچھ دیکھنا ہے، آپ کو بھی ساتھ لے کر جانا ہے، کچھ کہنا ہے، کچھ سننا ہے۔ ’’تادی شیطان کڑی دہ۔‘‘
اس سفر کو ’’آرگنائز‘‘ کرنے کیلئے دوستوں کے ساتھ سفارت کاری کے فرائض پرانے پاپی ’’حاضر گل‘‘ نے سر انجام دیئے۔ گویا افتخار کے خواب کو حاضر نے تعبیردیا۔ اُس نے پہلے ہی تمام دوستوں کو سفر سے متعلق سہانے سپنوں کے اباسین میں یوں ڈبویا کہ ہر شخص حقیقت دیکھنے تک سپنوں میں ہی ڈبکیاں کھاتا رہا۔ یہ پہاڑی شخص پہاڑوں کے عشق میں کہیں پہاڑیوں میں گُم نہ ہو جائے، خدا خیر کرے!
قافلے کے اگلے رکن ڈاکٹر نعیم، دوستوں کے دوست توہیں ہی، دشمنوں کے بھی دوست ہیں۔ کیوں کہ آپ کے دشمن ہیں ہی نہیں۔ حالاں کہ آپ صاحبان کی بڑی بڑی مونچھیں ہیں، تعجب ہے۔ نامی گرامی ہومیو ڈاکٹر ہیں اور سیدو شریف میں اپنا کامیاب کلینک چلا رہے ہیں۔ حالاں کہ آپ کی بڑی بڑی مونچھیں ہیں۔ غریب اور لاچار مریضوں کا مفت چیک اَپ کرتے ہیں اور ادویات کی فراہمی میں ممکن حد تک رعایت بھی کرتے ہیں، حالاں کہ آپ کی……! بڑی مشکل سے اُن کو ادویہ کے باڑے سے اُٹھا کر دوستوں اور نظاروں کے اکھاڑے میں متعارف کر وا رہے ہیں۔ اللہ کرے، کلینک کے بجائے یہ تازہ اور صاف ستھرا ماحول اُس کو راس آئے اور وہ اسی طرح اگلے سفر میں ہمارا ساتھ دیں۔ قبل اس کے کہ قافلے کا منتظم اپنی د و عدد دو دو سِمز والے موبائل فونز دونوں کانوں کے ساتھ لٹکائے (ایک ہاتھ کے سہارے اور دوسرا کندھے کے سہارے)آئے، پونے بات ہم سے، پونے خود سے، پونے ایک لائن پر اور پونے دوسری لائن پر کرے۔ جو وہ خود سمجھے نہ ہم، نہ فون سننے والے سمجھیں، اور قافلہ چل پڑے۔ تب تک دوسرے دوستوں کی تعارفی نشست اگلے پڑاؤ تک ملتوی کرتے ہیں اور شہرِ بشام بارے جلدی جلدی مختصر بات کرتے ہیں۔ کہیں گہما گہمی اور گرمی کی شدت میں رہ نہ جائے۔ ورنہ امرود ’’حلالی‘‘ کیوں کر ہو سکے گا۔
بشام اب شانگلہ کا بڑا شہر بن چکا ہے۔ اپنے ضلع کے ہیڈ کوارٹر سے بھی بڑا۔ منفرد جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے کہ یہ چین کو پاکستان سے ملانے والی مشہور شاہراہ ِ ریشم کا گیٹ وے ہے۔ یہاں سے شمالی علاقہ جات کے لئے اصل سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کا بازار عموماً چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے جس میں ہر قسم کی چینی اور دوسرے ممالک کی اشیا فروخت کے لئے دستیاب ہوتی ہیں۔ گرمیوں میں بین الاقوامی سیاح شمالی علاقہ جات کی سیر کے لئے آتے ہیں، تو گرمی کے باوجود آتے جاتے یہاں سستاتے ضرور ہیں۔ اباسین کا ہمسایہ ہونے کے باجود بشام خود گرم تو ہے ہی، گرمی مزید بڑھانے اور پھیلانے میں مدد بھی دیتا ہے۔ یہاں پر پی ٹی ڈی سی کے ایک موٹل کے علاوہ اور بھی ہوٹل موجود ہیں جو مہمانوں کو قیام و طعام کی مناسب سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ یہاں کے امرود کے باغات کا تازہ اور میٹھاپھل ستمبر کے مہینے میں فراوانی کے ساتھ لوکل مارکیٹ میں ملتا ہے۔ گلگت جانے والے یہ سوغات اپنے ساتھ ضرور لے جائیں۔ راستے میں کھائیں بھی، دوستوں کو کھلائیں بھی اور دعائیں بشامی کاشتکاروں کو دیں، جن کی محنت کی وجہ سے پورے بازار اور سڑک کے اطراف میں کچھ عرصے کے لئے سہی امرودوں کا میلہ لگا رہتا ہے۔

لو جی، ’’سودا سلف ٹیم‘‘ تھیلوں اور پیکٹوں میں ’’کھلاؤ پلاؤ سامان‘‘ سمیت آ دھمکی ہے۔ فروٹس، یعنی امرود کے کچھ تھیلے ایک ایک گاڑی کے مکینوں میں تقسیم کرتے ہوئے اشاروں کی زبان میں آگے کا سفر جاری کرنے کے احکامات دیئے جا رہے ہیں۔ ابھی دِل تھام کے بیٹھیں جناب، کچھ ہی دیر میں ہم شمال کا رُخ کرنے والے ہیں۔ اِس’’ غمی خوشی عمل‘‘ میں بشام کی بات ادھوری چھوڑ کرقلم کی چونچ بند اور اپنی اپنی کھول کر امرود تناول فرماتے ہیں۔ آخر یہ عاجز پیٹ بھی توجہ کا مستحق ہے۔
بشام کی بائیں جانب پل ’’کراس‘‘ کرکے شاہراہِ ریشم پر پہلا قدم رکھتے ہیں، تو اباسین اپنا دیدار کرواتا ہے۔ جسم میں کچھ گڑگڑاہٹ پیدا ہونے لگتی ہے، زلزلے جیسا ارتعاش محسوس ہونے لگتا ہے۔ سینے پر ہاتھ رکھتے ہیں اور کان ’’اِلرٹ‘‘ کرتے ہیں، تو لگتا ہے جیسے چلتی ہوئی ایم آر آئی مشین کے اندر سے بھانت بھانت کی آوازیں نکل رہی ہیں۔ آوازیں، چلتی ہوئی آرہ مشین کی۔ آوازیں،لوہار کے ہتھوڑے کی، کسی چلتی ہوئی فیکٹری کی اور درزی کی سلائی کڑھائی مشین کی۔ ہم نے سینے کو سختی سے دبایا، آنکھیں بند کیں، سر کو گاڑی کی سیٹ کے ساتھ ایڈجسٹ کیا، تاکہ گاڑی میں آگے بیٹھے دو حاضرین سلطان حسین اور شاہ جی نجی گرامی کو لگے جیسے ہم سونے کی مشق سے گذر رہے ہوں۔ حالاں کہ بولتے ہوئے شاہ جی یا خاموش ہوئے شاہ جی، دونوں دور اندیشوں کے سامنے سونے یا بولنے دونوں کی سخت ممانعت ہے۔ اس عارضی ’’ڈِس کنکشن‘‘ کے دوران میں ہم حاضرنامی بندے کو، جس نے ہمیں اس رستے پر ڈالا، اگلے پڑاؤ میں کوسنے کے لئے شرعی و سماجی حدود و قیود کے اندر مشق کی تیاری کر رہے ہیں۔ شرعی حدود میں اس لئے کہ یہ شخص ایک دفعہ بپھر جائے، تو شیر کو کنٹرول کرنا آسان ہے اس کو کنٹرول کرنا ’’جوئے شیر‘‘ لانے کے مترادف ہے۔ شکرکہ وہ ہمارے ساتھ گاڑی میں موجود نہیں، ورنہ ابھی حشر نشر کی شروعات ہو چکی ہوتی۔

اشتہار

خیر یہ تو وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔ ’’جوئے شیر‘‘ کی بات آئی ہے، تو ذہن کے تہہ خانے نے پرانی ڈائری میں لکھے بہت پرانے، لیکن بہت خوبصورت اشعار جو ہم کبھی کبھی یونیورسٹی کے زمانے میں گنگنایاکرتے تھے، کی موہوم سی یاد دِلائی۔ ڈھونڈے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔ اشعار کی کیا مجال جو نہ ملیں، لیکن سیاہی بکھرنے کی وجہ سے بعض الفاظ مندمل ہو چکے تھے۔ انٹرنیٹ کا شکریہ۔ دسمبر اُنیس سو اُنچاس میں’’آنند نرائن ملا ‘‘ نے وہی اشعار کچھ یوں کہے تھے۔

گرتوں کو تھامے جو وہ کفِ دستگیر لا
تقدیرِ شب میں صبح کی روشن لکیر لا
مرہم نہیں نظر میں تو نشتر زنی نہ کر
یا تیشہ لے نہ ہاتھ میں یا ’’جوئے شیر‘‘ لا
(جاری ہے)

نوٹ:۔

  • زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
  • تحریر مصنف کی باقاعدہ اجازت سے شائع کی گئی ہے

اشتہار

اشتہار