درد و کرب کی داستان سانحہ پالیر


غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے فیسبک کے ذریعے یہ تہلکہ خیز افسوسناک خبر (کالام پالیر کے مقام پر چئر لفٹ ٹوٹنے کی وجہ سے 7افراد دریا برد) دیکھنے کے بعد دل کی دھڑکن کے ساتھ میری رفتار کبھی تیز اور کبھی سست ہورہی تھی مجھے نوجوانان کالام کی زندگی کے ہر افق پر تاریک گھٹاؤں کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔مایوسی ایک ناقابل تردید حقیقت بن کر میرے سامنے کھڑی تھی۔ولولوں ،حوصلوں اور امنگوں کی دنیا اجڑگئی تھی۔امید کا ہر نخلستان یاس کے صحرا کی بھیانک وسعتوں نے چھپالیا تھا۔تا ہم ایک وہم اور ایک جنون جو انسان کے دل میں عقل وشعور کے اعترافِ شکست کے بعد پیدا ہوتا ہے۔مجھے ہر ٹھکر کے بعد اٹھنے اور اُٹھ کے آگے بڑھنے کا سہارا دے رہا تھا۔
توہمات کے حسین پردوں میں حقیقت کا چہرہ چھپانے کی کوشش کررہا تھا میں اپنے ماحول کی تاریکی میں عقل وشعور کی مشعل کا سہارا چھوڑ کر موہوم امیدوں کی چراغ روشن کررہا تھا۔ایک فریب خوردہ بچے کی طرح میں تمام دنیا کو جھٹلا رہا تھا۔
مایوسی اور بے کسی کے سمندر کی اتاہ گہرائیوں میں غوطہ لگانے کے بعد اپنے دل سے میرا پہلا سوال یہ تھا کہ

“اس واقعے کا ذمہ دار کون”میں نے اپنے گڑیا کی طرف دیکھا اور میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔
میں نے اپنے چہرے کو ہتھیلیوں میں چھپایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔میری گڑیا گھبرا کر ماں کے ساتھ لپٹ گئی اور اس کی ماں بھی سسکیاں لینے لگی اس کے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے کہ اگر میری بیٹی اس طرح دریا برد ہوگئی تو میں مرجاؤں گی۔میں ایسے موقعوں پر سخت دل واقع ہوا ہوں لیکن اس دفعہ میں بھی زیادہ دیر ضبط سے کام نہ لے سکا اور آنسو بہانے لگا۔
سازِ ہستی کا وہ تار جس کی ہر جنبش کے ساتھ ان بچوں کے والدین کی معصوم زندگی کی مسرتیں رقص کررہی تھی اب ٹوٹ چکا ہے۔اُس شخص کی طرح جسے ہاتھ پاؤں باندھ کر پانی میں پھینک دیا گیا ہو، مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔انتہائی کرب کے حالت میں، مَیں چیخیں مارکر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتاہوں لیکن وہ طوفان جو دل سے دردناک چیخیں بن کر اٹھتا ہونٹوں تک پہنچتے پہنچتے ہلکی ہلکی آہوں اور سسکیوں میں تبدیل ہوکر رہ جاتاہے۔
میری طرح اہل کالام کے لئے بھی ان نوجوانوں کی موت نے زندگی کا مفہوم بدل دیا ہے۔سورج ہر صبح اپنی پرانی آب و تاب کے ساتھ نکلتا ہے۔ستارے ہر شام نمودار ہوتے ہیں۔چاند ہر رات اپنی شکلیں بدلتا ہیں۔درخت اسی طرح کھڑے ہیں فضا میں پرندے اسی طرح اڑتے ہیں۔دریا سوات کے لہریں راوی کی لہروں سے مختلف نہیں ہے لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اس کائنات میں ایک ایسی خلا پیدا ہوگئی ہے جو اب پُر نہیں ہوسکتی۔

( خبر جاری ہے )

Comments
Loading...

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. AcceptRead More