تخت لاہور میں رنجیت سنگھ کا دربار لگا ہوا ہے۔ فرانس کا سفیر بھی موجود ہے، دربار میں اُن کا ایک وزیر آتا ہے اور رنجیت سنگھ سے کچھ عرض کرتا ہے۔ جواب میں رنجیت سنگھ کہتا ہے کہ یہ نامنجور (نامنظور) ہے۔ کچھ دیر بعد ایک اور وزیر آتا ہے اور رنجیت سنگھ سے کچھ عرض کرنے لگتا ہے۔ جواب میں رنجیت سنگھ کہتا ہے کہ یہ منجور (منظور) ہے۔ دربار میں موجود فرانس کے سفیر حیرانی سے رنجیت سنگھ سے پوچھتا ہے کہ یہ دونوں آپ کے وزیر ہیں۔ ایک کا مطالبہ آپ نے نامنظور کیا اور دوسرے کو منظور کر دیا۔ یہ کیا بات ہوئی؟ رنجیت سنگھ سفیر سے جواباً کہتا ہے کہ بے شک یہ دونوں میرے وزیر ہیں، لیکن میں نے جس وزیر کے مطالبات منظور کئے ہیں، اُس کے پیچھے مجھے عوامی طاقت نظر آرہی ہے اور جس کے مطالبات میں نے نا منظور کیے، اس کے پیچھے مجھے عوام نظر نہیں آرہے ہیں۔ قارئین، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سوات کے منتخب ایم پی ایز اور ایم این ایز اپنی پارٹی حکومت میں سوات کے لیے ٹھوس ترقیاتی منصوبوں کو منظور نہیں کرواسکے ہیں۔ مثال کے طور پر گران ’’ایم پی اے‘‘ اپنے منتخب علاقے پانڑ مینگورہ سے دنگرام، کوکارء، جامبیل، سنگر تک بچھی ایک سڑک کو اپنے دورِ اقتدار میں پختہ نہیں کرسکے، تو اس قسم کے ایم پی اے بننے سے کیا فائدہ؟ جو لوگ اُن کے خلاف اور سڑک پختہ کرنے کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں، وہ گران ایم پی اے کی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے اور جو اُن کے پارٹی ورکر ہیں، وہ گران کے پیچھے عوامی طاقت بننے سے قاصر ہیں۔ اس وجہ سے چار سالہ اقتدار میں گران ایک سڑک تک پختہ کرنے سے لاچار ہیں اور اُن کا سیاسی گراف تیزی سے گرتا جا رہا ہے۔ ایک اور مثال سے اپنی بات کو مزید واضح کرتا چلوں کہ ایک سیاحتی مقام ملم جبہ کی سڑک جو کھنڈر نما ہوگئی ہے، اب جب وہاں کے ایم پی اے اپنے حلقے میں ملم جبہ کی ایک معمولی سی سڑک پختہ نہیں کرسکے، تو اُس حلقے کے لو گ اس سے مزید ترقیاتی کاموں کی توقع کیسے کرسکتے ہیں؟ لنڈاکی سے مینگورہ اور آگے کالام تک اگر تحریک انصاف کے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات کھنڈر نما سڑک کو پختہ نہیں کرسکے، تو یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔ کچھ لوگوں کا مؤقف ہوگا کہ جی ٹی روڈ تو وفاق کی ذمہ داری ہے، تو کیا صوبائی حکومت وفاقی حکومت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی؟ قارئین، واضح ہو کہ سوات ایک سیاحتی علاقہ ہے، مگر یہاں کی خراب سڑکوں سے سیاحوں کا رُخ مری، ناران، کاغان اور نتھیا گلی کو منتقل ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں سوات میں بیس بیس گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہو، سوات کے ایک ایم پی اے کے علاوہ باقی سب ممبرز تحریک انصاف کے ہوں اور وہ بھی عوام کی طرح محض ’’احتجاج‘‘ پر مجبور ہوں، تو اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے؟اس طرح جہاں تک ایم پی اے فضل حکیم کی کارکردگی کا تعلق ہے، تو اُن کی کارکردگی اُس وقت تک عوام کے سامنے نہیں آسکتی جب تک مینگورہ کی حدود میں جامبیل خوڑ اور مرغزار خوڑ کا پانی صاف و شفاف نہ بہے اور یہ ہر قسم کے گند سے پاک نہ ہوں۔ جب تک سیدو شریف اور مینگورہ کی حدود میں یہ خوڑ کچرے کا ڈھیر ہوں گے، یہ گندگی کے ڈھیر کا منظر پیش کریں گے، تو فضل حکیم کی کارکردگی قابل تحسین رقم نہیں کی جاسکتی۔ سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ منتخب عوامی نمائندے اپنے حلقہ نیابت کو اعتماد میں لینے کی تکلیف تک گوارا نہیں کرتے۔ لوگوں سے اُن کا میل ملاپ نہیں ہے، اپنے موبائل فون کو مسلسل بند رکھتے ہیں۔ یہ اور اس قبیل کے دیگر امور انہیں عوام سے دور لے جانے کا سبب ہیں۔ اب آخر میں اگر مراد سعید ایم این اے کی بات کریں، تو یہ اپنے حلقہ نیابت میں بری طرح ناکام گردانے جاتے ہیں۔ عوام سے دوری بہت جلد ان کے لیے سیاسی موت ثابت ہوگی۔