پشاور میں ٹریفک منیجمنٹ پلان پر 5 سال بعد بھی عمل درآمد نہ ہوسکا

پشاور میں ٹریفک کو رواں رکھنے اور پارکنگ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بنائے گئے ٹریفک منیجمنٹ پلان پر 5 سال بعد بھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔

شاور میں ٹریفک کو رواں رکھنے، پارکنگ کا مسلہ حل کرنے اور اندرون شہر ٹریفک کو ون وے کرنے کے لیے بنائے گئے ٹریفک منیجمنٹ پلان پر 5 سال بعد بھی عمل درآمد نہ ہوسکا جب کہ وزیراعلیٰ کے احکامات کے باوجود ڈیڑھ سال بعد بھی پشاور کی ٹریفک کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی جاسکی

پشاور(ویب ڈیسک ) پشاور میں ٹریفک کو رواں رکھنے، پارکنگ کا مسلہ حل کرنے اور اندرون شہر ٹریفک کو ون وے کرنے کے لیے بنائے گئے ٹریفک منیجمنٹ پلان پر 5 سال بعد بھی عمل درآمد نہ ہوسکا جب کہ وزیراعلیٰ کے احکامات کے باوجود ڈیڑھ سال بعد بھی پشاور کی ٹریفک کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی جاسکی۔

پی ٹی آئی کے گزشتہ دور حکومت کے دوران 2014 میں ٹریفک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے موجودہ وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کی سربراہی میں ٹریفک منیجمنٹ پلان کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے مختصر عرصے میں ٹریفک پلان تشکیل دیا پلان اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک کو پیش کیا جس پر عمل درآمد کرنے کے احکامات جاری کیے گئے لیکن بلدیاتی نظام کے بعد ٹریفک منیجمنٹ پلان ضلعی حکومت کے حوالے کردیا گیا اور پانچ سال کا عرصہ گزرنے جانے کے باوجود اس پر عمل نہ ہوسکا۔

وزیراعلیٰ محمود خان نے بھی ٹریفک منیجمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے احکامات جاری کیے لیکن موجودہ حکومت بھی اس پر عمل نہ کرسکی، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ٹریفک منیجمنٹ پلان کے مطابق اندرون شہر سڑکوں کو ون وے کرنے، قصہ خوانی سے چوک یادگار تک راستے کو ٹریفک کے لیے بند کرنے، بڑے بازاروں میں پارکنگ ایریاز بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جب کہ بڑی شاہراہوں پر پارکنگ کے لیے لائنگ کرنے اور ٹکٹ سسٹم شروع کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی تھی۔
ٹریفک منیجمنٹ پر عمل درآمد کے لیے ڈپٹی کمشنر اور ٹریفک پولیس کو احکامات جاری کیے گئے ہیں لیکن ابھی تک ٹریفک منیجمنٹ پلان پر عمل درآمد نہ ہوسکا، وزیراعلیٰ نے پشاور میں ٹریفک پولیس کی کمی کے پیش نظر مزید ٹریفک پولیس اہلکار بھرتی کرنے کی منظوری دی ہے۔

( خبر جاری ہے )

ملتی جلتی خبریں
Comments
Loading...

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. AcceptRead More