برطانیہ کل جمعے کو یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا

یورپی یونین کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں بریگزٹ ڈیل کی حمایت میں 621 اور مخالفت میں 49 ووٹ ڈالے گئے۔

یورپین کمیشن کی صدر اُرسلا ون کا کہنا تھا کہ بریگزٹ معاہدے کی توثیق برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان نئے تعلقات کی طرف پہلا قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آپ سے ہمیشہ پیار کرتے رہیں گے اور ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے دور نہیں ہوں گے۔خیال رہے کہ دسمبر 2019 میں برطانیہ کے تاریخی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے اور دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد بورس جانسن نے کہا تھا کہ انہیں عوام نے یہ مینڈیٹ یورپی یونین سے نکلنے کےلیے دیا ہے، اس لیے برطانیہ آئندہ ماہ یورپی یونین چھوڑ دے گا۔ بعد ازاں برطانوی دارالعوام (ایوان زیریں) اور دارالامراء (ایوان بالا) نے رواں ماہ یورپی یونین سے اخراج کا بل منظور کرلیا تھا۔ برطانوی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم نے بھی گذشتہ ہفتے یورپی یونین سے علیحدگی کی باضابطہ منظوری دی تھی۔

اسلام آباد(ویب ڈیسک) یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت کے ساتھ بریگزیٹ ڈیل (برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے معاہدے) کی توثیق کردی ہے۔ بیلجیئم کے شہر برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں بریگزٹ ڈیل کی حمایت میں 621 اور مخالفت میں 49 ووٹ ڈالے گئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بل کی منظوری کے بعد برطانیہ آئندہ جمعے کو یورپی یونین سے الگ ہوجائے گا۔ اس موقع پر یورپی پارلیمنٹ کے متعدد برطانوی اراکین کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ برطانیہ ایک دن دوبارہ یونین میں واپس آئے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کے صدر ڈیوڈ ساسولی نے اپنے خطاب میں برطانوی اراکین اور عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ یورپی یونین کو چھوڑ رہے ہیں لیکن آپ ہمیشہ یورپ کا حصہ رہیں گے۔

یورپین کمیشن کی صدر اُرسلا ون کا کہنا تھا کہ بریگزٹ معاہدے کی توثیق برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان نئے تعلقات کی طرف پہلا قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آپ سے ہمیشہ پیار کرتے رہیں گے اور ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے دور نہیں ہوں گے۔خیال رہے کہ دسمبر 2019 میں برطانیہ کے تاریخی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے اور دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد بورس جانسن نے کہا تھا کہ انہیں عوام نے یہ مینڈیٹ یورپی یونین سے نکلنے کےلیے دیا ہے، اس لیے برطانیہ آئندہ ماہ یورپی یونین چھوڑ دے گا۔ بعد ازاں برطانوی دارالعوام (ایوان زیریں) اور دارالامراء (ایوان بالا) نے رواں ماہ یورپی یونین سے اخراج کا بل منظور کرلیا تھا۔ برطانوی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم نے بھی گذشتہ ہفتے یورپی یونین سے علیحدگی کی باضابطہ منظوری دی تھی۔

ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد ووٹ
یاد رہے کہ برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا اس سے نکل جانے کے حوالے سے 23 جون 2017 کو ریفرنڈم ہوا تھا جس میں بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد جب کہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے تھے جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا کیوں کہ وہ بریگزٹ کے مخالف تھے۔ ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کے بعد برطانیہ کی وزیراعظم بننے والی ٹریزا مے نے جولائی 2019 میں بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور ان کے بعد بورس جانسن نے عہدہ سنبھالا تھا۔ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی بورس جانسن نے کہا تھا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو برطانیہ 31 اکتوبر2019 کو یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا تاہم وہ اس میں ناکام رہے۔ برطانوی پارلیمنٹ نے 2 مرتبہ بورس جانسن کے منصوبے کو ناکام بنایا جس پر انہوں نے ملکہ برطانیہ سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی منظوری بھی لی تھی جس کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

بریگزٹ ڈیل کے باعث 5 سال کے دوران تین عام انتخابات
بعد ازاں یورپی یونین نے معاہدے کا وقت دیتے ہوئے 31 جنوری 2020 تک توسیع کی منظوری دی جس کو بورس جانسن نے قبول کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ یہ برطانیہ میں گزشتہ 5 سال کے دوران ہونے والے تیسرے عام انتخابات تھے، ان انتخابات میں بورس جانسن کی جماعت نے واضح برتری حاصل کی تھی جس کے بعد امید تھی کہ اب بریگزٹ ڈیل میں انہیں کوئی مشکل نہیں آئے گی۔ واضح رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

( خبر جاری ہے )

ملتی جلتی خبریں
Comments
Loading...

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. AcceptRead More