بھارتی حکومت نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی تیاریاں شروع کردیں

بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں ٹرسٹ تشکیل دینے کا اعلان کیا۔

برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کیلئے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔ بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے 1980 میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع کی تھی۔ 1992 میں ہندو انتہا پسند پورے بھارت سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کر دیا جب کہ اس دوران 2 ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں، بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی کو اس سلسلے میں عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔ حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کیلئے کئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر کو بابری مسجد کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے مسجد ہندوؤں کے حوالے کردی اور مرکزی حکومت ٹرسٹ قائم کرکے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم دے دیا جب کہ عدالت نے مسجد کے لیے مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا بھی حکم دیا ہے

نئی دہلی(ویب ڈیسک)بھارتی حکومت نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے تیاریاں شروع کردیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں ٹرسٹ تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ مودی نے لوک سبھا میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کے سلسلے میں ٹرسٹ کے قیام کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور کابینہ رام مندر کی تعمیر کے سلسلے میں ایک جامع پلان بناچکی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے لوک سبھا میں رام مندر کی تعمیر کی نگرانی کرنے والے ٹرسٹ کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ٹرسٹ کو شری رام جنم بھومی تیرتھا کشیرتا کا نام دیا گیا ہے جو مندر کی تعمیر کے معاملے اور اس سے متعلقہ مسائل پر آزادانہ فیصلے کرےگا۔ بھارتی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ کی تشکیل کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کی روشنی میں لیا گیا ہے۔ مودی نے بتایا کہ اترپردیش کی حکومت سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ زمین فراہم کرنے پر رضا مند ہے۔

بابری مسجد کا پس منظر
1528ء میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔ برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کیلئے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔ بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے 1980 میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع کی تھی۔ 1992 میں ہندو انتہا پسند پورے بھارت سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کر دیا جب کہ اس دوران 2 ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں، بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی کو اس سلسلے میں عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔ حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کیلئے کئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر کو بابری مسجد کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے مسجد ہندوؤں کے حوالے کردی اور مرکزی حکومت ٹرسٹ قائم کرکے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم دے دیا جب کہ عدالت نے مسجد کے لیے مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

( خبر جاری ہے )

ملتی جلتی خبریں
Comments
Loading...

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. AcceptRead More