فاٹا انضمام عوام سے پوچھے بغیر کیا گیا جو قبول نہیں ،قومی جرگہ عمائدین کا مقامی پریس کلب میں پریس کانفرنس

مئی 2018 میں فاٹا کے ائینی حیثیت کو ختم کردیاگیا تھا جس کے خلاف ہم نے عدالت میں کیس بھی دائر کیا ہے

سوات(زما سوات ڈاٹ کام) سوات کے مقامی پریس کلب میں میں فاٹا قومی جرگہ کے زیر اہتمام چیئرمین ملک بسم اللہ افریدی کے صدارت میں قومی جرگہ کے عمائدین ملک تائب خان ایف ار کوہاٹ۔ملک عبدالرزاق افریدی خیبر۔ ملک شکیل خان اورکزئی۔ ملک خالد خان۔ ملک زیارت گل مہمند۔ ملک یار افریدی۔ ایف ار پشاور۔ملک محمدی شاہ باجوڑ۔ملک رقیب گل وزیرستان.  ملک بوستان۔ ملک میر افضل مہمند ملک ضراب گل افریدی۔ ملک فضل الرحمان اورہملک موسی اور سوات کے تاجر برادری کے صدرعبدالرحیم۔ سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر الحاج ذاہد خان۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے خورشید کاکاجی۔اورنگزیب ایڈوکیٹ نے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مئی 2018 میں فاٹا کے ائینی حیثیت کو ختم کردیاگیا تھا جس کے خلاف ہم نے عدالت میں کیس بھی دائر کیا ہے اور حکومتی ارکان سے متعدد ملاقاتیں بھی کی ہے۔فاٹا کے عمائدین کا کہنا تھا کہ ہم نے ایف س ار قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے کہا تھا تاہم حکومت نے الٹا ہمارے ائینی حیثیت کو ختم کرکے ہمارے اوپر انکم ٹیکس۔کسٹم ڈیوٹی اور ویلتھ ٹیکس نافذ کردیا جو سراسر قبائیلی عوام کے ساتھ ظلم ہے۔اس موقع پر سوات  ٹرید فیڈریشن کے صدر عبدالرحیم نے قراداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا، اور پاٹا میں اصلاحات کے نام پر کئے گئے ظالمانہ اقدامات کو فوری طور پر واپس لئے جائیں، اگر ان کے مطالبات نہیں مانے گئے تو ملاکنڈ ڈویژن اور فاٹا کے عوام ایک پیج پرہونگے اور اپنے مطالبات کے حق میں ہرقسم کی جدوجہد سے دریغ نہیں کرینگے،انہوں نے فاٹا کے عمائدین کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا اور حکومتی فیصلے کو ظالمانہ اقدام قرار دیا۔  سوات کے ممتاز قانون دان اورنگزیب ایڈو کیٹ نے واضح کیا کہ فاٹا اور پاٹا کے ائینی حیثیت میں فرق ہے۔ فاٹا کے  عوام سے پوچھے بغیر ان کو خیبرپختون خوا میں ضم کردیاگیاہے۔ جبہ پاٹا میں اصلاحات کے بجائے اس علاقے میں مختلف ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ جس کے خلاف علاقے کے عمائدین جدوجہد کررہے ہیں۔

( خبر جاری ہے )

ملتی جلتی خبریں
Comments
Loading...

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. AcceptRead More