سنگل مرکزی صوبائی بورڈ ، ایڈم سمتھ انٹرنیشنل پالیسی کے لئے راہ ہموار کرنا ہے، خیبر پختونخوا بورڈز ایمپلائز کوارڈینیشن کونسل

پنجاب میں 9 تعلیمی بورڈز، سندھ میں 5 تعلیمی بورڈز، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں الگ الگ تعلیمی بورڈز کے ساتھ ساتھ فیڈرل تعلیمی بورڈ بھی کام کررہے ہیں

سوات (زما سوات ڈاٹ کام ) خیبر پختونخوا بورڈز ایمپلائز کوارڈینیشن کونسل  صوبے کے تمام آٹھوں تعلیمی بورڈز کے توسط سے جاری پریس ریلیز میں کہا  ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت خصوصا وزیراعلی اور وزیر تعلیم اپنی تقاریر میں ایک دو باتیں ہر جگہ تعلیمی بورڈز کے بارے میں کہتے آرہے ہیں کہ ہم تعلیمی بورڈز میں اصلاحات اس وجہ سے کررہے ہیں کہ بورڈز اتنے زیادہ ہوتے جارہے ہیں کہ ہر ضلع میں اب بورڈ ہے اور رزلٹ میں بورڈز طلباء کو نمبروں یعنی مارکس کی بوریاں بھرتے ہیں اور طلباء 1100 میں سے پورے 1100 مارکس لیتے ہیں۔ اسی طرح موجودہ وزیر اعلی اور وزیر تعلیم بورڈز میں پوزیشن ہولڈرز طلباء اور انکے اداروں خصوصا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بورڈز سے پوزیشنز خریدتے ہیں اور یہ ان لوگوں کی ملی بھگت سے ہورہا ہے۔ اسی وجہ سے بورڈز ایمپلائز کوارڈینیشن کونسل مندرجہ بالا من گھڑت باتوں کی وضاحت کرنا چاہتی ہے۔

1۔ کونسل یہ بات واضح کرتی ہے کہ تعلیمی بورڈز اور اس کے تمام ملازمین صرف امتحانات لینے اور نتائج مرتب کرنے کی سہولت کار ہے نہ یہ طلباء سے امتحان لیتے ہیں نہ ہی پرچوں کی چیکنگ یعنی مارکنگ کرتے ہیں۔ یہ سب ایک نظام کے تحت ہوتا ہے جس کے لئے وقتا فوقتاً صوبائی یا مرکزی حکومت قوانین بناتی ہے جسے بورڈز میں BOG لاگو کرتے ہیں۔  جہاں زیادہ نمبرات یا نمبرات کی بھرمار والی بات ہے تو 2020 سے پہلے کہی بھی کسی بورڈ میں کسی طالب علم نے پورے کے پورے نمبرات حاصل کئے ہو تو ہمیں دکھایا جائے جبکہ 2020 اور 2021 میں کرونا وباء کی وجہ سے مرکزی اور صوبائی حکومت کی پالیسی کے مطابق صرف 3 یا 4 مضامین کا امتحان لیا گیا اور ان مضامین کے اوسط حساب سے دیگر 12 اور 9 مضامین کے نمبرات دئے گئے اور اوپر سے 3 اور 5 فیصد اضافی نمبرات دینے کا فیصلہ بھی حکومت کا تھا۔ اسی طرح جماعت نہم اور پارٹ 1 کے طلباء کو جماعت دہم اور پارٹ 2 کے حاصل کردہ نمبرات (یاد رہے ان دونوں میں بھی وہی 3 اور 5 فیصد اضافی نمبرات شامل ہیں) کے حساب سے جماعت نہم اور پارٹ 1 کے نمبرات دئے گئے تو اس میں یقینی طور پر یہ 1100 میں سے 1100 نمبرات حاصل کئے جاسکتے تھے۔ دوسری طرف یہ فارمولہ صرف خیبر پختونخوا میں نہیں ہوا تھا بلکہ پنجاب کے ایک بورڈ میں 300 سے زیادہ طالبالعم 1100 نمبرات حاصل کر کے تھے۔

2۔ کونسل یہ بات بھی واضح کرتی ہے کہ صوبائی حکومت خصوصا وزیر اعلی اور وزیر تعلیم اپنے نظام اور اپنے حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کررہی ہے کہ بورڈز پوزیشنز پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو بھیجتی ہے اور یہ انکی ملی بھگت ہے۔ کونسل یہ بات واضح کرنا چاہتی ہے کہ بورڈز کہ اعلی افسران یعنی چئیرمین، سیکرٹری اور کنٹرولر صاحبان کی تعیناتیاں ڈیپوٹیشن بنیادوں پر صوبائی محکمہ تعلیم اور وزیر اعلی کرتے ہیں تو اگر انکی تعیناتیاں ملی بھگت سے ہوتی ہے تو پھر یہ پوزیشنز بھی انہی لوگوں کی ملی بھگت ہوگی کیونکہ بورڈز مستقل ملازمین کا ان کاموں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ دوسری طرف اگر صوبائی حکومت سمجھتی ہے کہ یہ ملی بھگت ہوئی ہے تو کیا صوبائی حکومت نے تمام بورڈز میں کسی بھی بورڈ میں کسی بھی وقت کوئی تحقیقات کی ہو تو اس کے نتائج عوام کے سامنے لائے جائے یا اب کسی بھی بورڈ میں ان پوزیشنز کی 2018 یا 2013 سے جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے تحقیقات کریں کہ کس کی ملی بھگت سے یہ پوزیشنز بھیجی گئی ہے۔ دوسری جانب کونسل پوزیشن ہولڈرز طلباء انکے والدین اور انکے تعلیمی اداروں (سرکاری اور پرائیویٹ) کو بتانا چاہتی ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت آپ کے پوزیشنز کو تسلیم نہیں کرتی اور اسے تعلیمی اداروں اور بورڈز کے ملی بھگت کا نام دے رہی ہے لہذا آپ لوگ صوبائی حکومت سے اسکی وضاحت طلب کریں۔

3۔ موجودہ صوبائی حکومت یہ بات کہہ رہی ہے کہ بورڈز کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ اب ہر ضلع میں بورڈ ہے تو یہ اس حکومت کی اس وعدہ کی نفی ہے جو یہ لوگوں سے کرتی چلی آرہی ہے کہ تحریک انصاف لوگوں کو انکے گھروں کی دہلیز پر سہولیات دیں گی اور انکی یہ بات ثبوت ہے کہ یہ موجودہ بورڈز کو ختم کرنا چاہتی ہے اور یہ سنگل مرکزی صوبائی بورڈ اور ایڈم سمتھ انٹرنیشنل کی پالیسی کے لئے راہ ہموار کرنا ہے۔ اس وقت خیبر پختونخوا کی طرح دیگر صوبوں میں بھی مختلف تعلیمی بورڈز یعنی پنجاب میں 9 تعلیمی بورڈز، سندھ میں 5 تعلیمی بورڈز، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں الگ الگ تعلیمی بورڈز کے ساتھ ساتھ فیڈرل تعلیمی بورڈ بھی کام کررہے ہیں۔ ایک مرکزی بورڈ اگر بنانا ہے تو پھر تو سارے پاکستان کے لئے ایک مرکزی بورڈ بنانا چاہئے۔

کوارڈینیشن کونسل یہ سمجھتی ہے کہ تعلیمی بورڈز میں بہت سے اصلاحات ہوسکتی ہے اور بہت سے اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن ان اصلاحات کے لئے پہلے سے موجودہ فورمز یعنی KPBCC اور ہر بورڈ کی BOG اور جوائنٹ اکیڈمک کمیٹی کو استعمال میں لاکر کئے جاسکتے ہیں۔ اسی لئے کونسل یہ سمجھتی ہے کہ صوبائی حکومت اگر بیرونی این جی او ایڈم سمتھ انٹرنیشنل کے ایجنڈے کو چھوڑ کر واقعی اصلاحات چاہتی ہے تو درجہ بالا فورمز کو استعمال کیا جاسکتا ہے جس کے اس صوبے اور یہاں کے تعلیمی اداروں پر دور رس نتائج مرتب ہونگے اور ایک اعلی تعلیم یافتہ قوم بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔

( خبر جاری ہے )

ملتی جلتی خبریں
Comments
Loading...

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. AcceptRead More