قربانی یہ ہوتی ہے کہ حسین احمد مدنی انگریز عدالت میں اپنے موقف سے مکمل وابستگی اختیار کرکے اس پر جم جائے اور نتیجتا قید و بند کی صعوبت سے گزر جائے۔ قربانی وہ ہوتی ہے جب ابوالکلام آزاد قول فیصل جیسا شاہکار اعتراف جرم لکھ کر انگریز جج کے منہ پر دے مارے اور جیل چلا جائے۔ کیا ہمارے عہد میں کسی سیاسی رہنماء نے کوئی ایسی قربانی دی ؟ اخری بار ہماری آنکھ نے اس قسم کے نظائر بھٹو دور میں ہی دیکھے جب لوگ سیاسی موقف پر قید بھی کئے گئے اور انہیں انسانیت سوز مظالم سے بھی گزارا گیا۔ اب تو قربانی بھی جنس بازار بن چکی۔ قربانی کی دھونس دی ہی اس لئے جاتی ہے تاکہ اس کی قیمت لگوائی جا سکے۔ عمران خان کیوں کہتے ہیں کہ مجھے پیسے کی آفر ہوئی ؟ حالانکہ سیاست کے چور بازار کا تجربہ رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں آفر دینا ممکن ہی نہیں۔ چور بازاروں میں ’’وڈے سائیں‘‘ کے مال کی بولی لگا کر کسی نے مرنا نہیں۔ لیکن یہ بات کہی خان صاحب نے اسی لئے ہے کہ قربانیوں کی خرید و فروخت اس بازار کا عام معمول ہے۔ جسے ’’ڈیل‘‘ کہا جاتا ہے وہ قربانیوں کی خرید و فروخت نہیں تو کیا ہے ؟ پیپلز پارٹی والے زرداری صاحب کی قربانیوں کا بڑا حوالہ دیتے ہیں، اور حوالہ ہی نہیں دیتے بلکہ ساتھ فخریہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے ’’ڈیل‘‘ نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ زرداری صاحب جس چیز کے لئے قربانی دے رہے تھے کیا اس سے دگنی آفر انہیں کوئی دے سکتا تھا ؟ سرے محل کو دگنی قیمت میں کوئی پاگل ہی خرید سکتا تھا اور سویس اکاؤنٹس میں پڑے نوٹ آخر دگنی قیمت پر خرید کر کوئی ان کا کرتا کیا ؟ وہ کونسے آثار قدیمہ میں شمار ہوتے تھے کہ سو گنا سے بھی زیادہ میں بک جاتے ؟ اتنے بڑے سرمائے کے لئے لوگ جان لے بھی لیتے ہیں اور دے بھی دیتے ہیں قید کی مشقت تو بہت معمولی بات ہے۔ اسے قربانی کہہ کر قربانی کا نام رسوا کیا جاتا ہے۔
آج کی تاریخ میں اہم ترین سوال یہی ہے کہ کیا مزاحمت آگے بڑھے گی یا کوئی ڈیل ہوجائے گی ؟ نواز شریف کے تیور سخت دکھتے ہیں اور ان سخت تیوروں نے مخالف کیمپ میں افرا تفری کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ لاپتہ افراد کی تعداد میں حالیہ اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ جو لاپتہ کئے گئے وہ دوسرے دن ظاہر بھی کر دئے گئے۔ سیاسی قیدی کو بہرحال سیاسی قیدی ہی رکھا جائے۔ اس کے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک بہت سنگین مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ مفاہمت اور مزاحمت کی اس بحث کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جو پچھلے چار سال سے مزاحمت ہی کرتے رہے انہیں اب یکایک مفاہمت سے عشق ہو چلا ہے۔ وہ مفاہمت کے ایسے ایسے فوائد گنواتے ہیں کہ خود مفاہمت حیران ہو کر آئینہ دیکھنے لگتی ہے کہ واقعی اسی کا ذکر ہورہا ہے یا مارکیٹ میں کوئی ہمنام پروڈکٹ آگئی ہے ؟۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس ملک میں مفاہمت رہی کب ہے ؟ وہ کونسا سال ہے جب سول حکومت کو ڈیکٹیٹ نہیں کیا گیا ؟ وہ کونسا وزیر اعظم ہے جسے سکون سے اپنا دور حکومت پورا کرنے دیا گیا ؟ وہ کونسی اسمبلی ہے جس نے ٹوٹنے کے خوف سے آیت الکرسی کا ورد نہیں کیا ؟ اگر کوئی ایک بھی حکومت، کوئی ایک بھی وزیر اعظم اور کوئی ایک بھی اسمبلی سکون سے نہیں رہ سکی تو پھر مفاہمت کہاں رہی ؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ آج کی تاریخ میں جسے مفاہمت کہا جا رہا ہے وہ مفاہمت ہی ہے ؟ نہیں ! یہ مفاہمت نہیں سرنڈر کی تلقین ہے۔ کہنے والے درحقیقت یہ کہہ رہے ہیں کہ نکالنے والوں کے نکالنے کا برا نہیں منانا چاہئے اسے تھوڑی سی ناراضگی ظاہر کرکے قبول کر لینے کی روایت برقرار رکھنی چاہئے تاکہ ہم اشرافیہ کی باریاں لگی رہیں۔ اس نام نہاد مفاہمت میں سیاستدانوں کے لئے بہت کچھ ہو سکتا ہے مگر اس میں عوام کے لئے کچھ نہیں !
نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
اشتہار