فضل محمود روخان

بلوگرام لڑکیوں کی تعلیم میں نظر انداز

بلوگرام لڑکیوں کی تعلیم میں نظر انداز | فضل محمود روخان
میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مجھے بتایا گیا کہ بلوگرام میں پرائمری گرلز سکول موجود ہے لیکن اس کے علاوہ گرلز سکول کسی کیٹیگری میں نہیں ہے۔ بلوگرام کی بچیاں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے قمبر جاتی ہیں۔ وہاں گرلز مڈل سکول بھی ہے اور گرلز ہائی سکول بھی۔ اس طرح اوڈیگرام میں بھی گرلز ہائی سکول ہے۔ لڑکیاں پرائمری پاس کرکے اوڈیگرام مزید تعلیم کے لیے چلی جاتی ہیں۔ پختون معاشرے میں لڑکے تعلیم کے لیے جہاں جانا چاہتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ اپنی مرضی کے سکول میں پڑھتے ہیں، لیکن لڑکیاں حجاب کے بغیر کہیں بھی نہیں جاتیں۔ موجودہ پی ٹی آئی حکومت صوبے میں لڑکیوں کی تعلیم پر بہت زور دے رہی ہے اور کسی حد تک اس نے تعلیمی ایمرجنسی بھی نافذ کی ہے، لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ اس حکومت نے سوات کے ایک بڑے آبادی والے گاؤں بلوگرام کو کیسے نظر انداز کیا ہے؟ بلوگرام میں لڑکوں کے لیے ہائی سکول موجود ہے، لیکن اتنے بڑے گاؤں میں صرف ایک گرلز پرائمری سکول کیا معنی رکھتا ہے؟ یہاں کے لوگ اپنی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے ہیں اور دے بھی رہے ہیں۔ اس وجہ سے بلوگرام کی بچیاں مزید تعلیم کے لیے اپنے گاؤں سے نکل کر اوڈیگرام چلی جاتی ہیں۔ بعض بچیاں قمبر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتی ہیں۔ اگر ان تینوں گاوؤں اوڈیگرام، بلوگرام اور قمبر کی آبادی کا موازانہ کیا جائے، تو اوڈیگرام کی آبادی بلوگرام سے زیادہ ہوگی، لیکن بلوگرام کی آبادی قمبر سے اگر زیادہ نہیں ہوگی، تو کم تو کسی لحاظ سے نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ بلوگرام ایک پُرامن گاؤں ہے۔ یہاں کے لوگ شریف اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بلوگرام میں بڑی بڑی سیاسی شخصیات موجود ہیں، جو اپنی اپنی پارٹیوں میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے عنایت خان ملاکنڈ ڈویژن کی سطح پر ایک ذمہ دار فرد ہیں۔ اس طرح حیدر علی خان جو سیاسی اعتبار سے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، وہ بھی اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ اور بھی بہت سے سماجی ورکر ہیں جو معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم پر دھیان دیں اور اپنے گاؤں میں لوئر گرلز مڈل سکول، گرلز مڈل سکول، گرلز ہائی سکول اور اس طرح گرلز سیکنڈری ہائی سکول بلوگرام میں لے آئیں۔ شائد اُن کی اپنی بچیاں گورنمنٹ گرلز سکولوں میں نہیں جاتی ہوں گی اور وہ اعلیٰ پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتی ہوں گی، اس لیے اُن کو یہ مسئلہ دکھائی نہیں دیتا ہوگا۔ قارئین، بلوگرام گاؤں کی ہر بچی کا اپنے علاقے کے بڑوں پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ ان کے لیے سرکاری سطح پر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کریں۔ اس کے علاوہ علاقے کے ایم پی اے گران صاحب جو خود گوگدرہ گاؤں کے رہنے والے ہیں، ہر وقت بلوگرام کے گاؤں آتے جاتے ہیں۔ گو کہ انہوں نے فی الحال اپنے حلقے کے لیے بہت ترقیاتی کام کئے ہوں گے، اس لیے اُن کو چاہئے کہ باقی ماندہ عرصے میں بلوگرام گاؤں کے لیے لڑکیوں کا لوئر مڈل سکول، مڈل سکول اور گرلز ہائی سکول منظور کراکے عملی طور پر انہیں اپنے دورِ اقتدار میں بنوا کر بلوگرام کی بچیوں کو فراہم کریں، تاکہ وہ اوڈیگرام اور قمبر گاؤں کے بجائے اپنے گھروں میں تعلیم حاصل کریں۔ 

Related Articles

Loading...
Back to top button