سوات؛ سولہ محکموں کی لاپرواہی ڈینگی میں اضافے کی وجہ بنی
تحریر :عارف احمد
سوات میں اس سال ڈینگی کی روک تھام کے لئے اُنیس لائن ڈیپارٹمنٹ کو کام سونپا گیا تھا جس میں صرف تین محکموں نے کام کیا اور باقی سولہ محکموں کی کارکردگی صفر رہی۔اب یہ خدا کی کرنی توہو سکتی ہے لیکن حقائق یہی بتاتے ہے کہ متعلقہ محکموں کی معنی خیز خاموشی،غیر تسلی بخش انتظامات اور کوتاہیوں کی وجہ سے تین سال آرام کے بعد ڈینگی وائرس نے وادی میں دوبارہ پاؤں جما دئے۔
سرکاری و غیر سرکاری اعداد وشمار
مرکزی شہر مینگورہ سمیت ضلع بھر میں اس سال جولائی کے مہینے میں ڈینگی نے پیر جمانے شروع کردئے تھے۔ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس سوات کے مطابق سرکاری طور پر 586 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی جن میں ایک سو اکہتر خواتین بھی شامل تھیں ۔جن کا علاج سرکاری اسپتالوں میں کیا گیا۔سوات کے سب سے بڑے اسپتال ’’سیدو شریف ٹیچنگ اسپتال ‘‘ میں ڈینگی مریضوں کے لئے خصوصی وارڈز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔ڈی ایچ او آفس کے مطابق مینگورہ شہر میں15 فری میڈیکل کیمپس جبکہ تحصیل کی سطح پر اسپتالوں میں ڈینگی کے لئے خصوصی سینٹرز بھی قائم کئےگئے تھے۔ نجی اسپتالوں سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق اِس سال اُن کے پاس مریضوں کی تعداد نو سوکے قریب رہی،سیدو شریف میں موجود ایک نجی صحت مرکز میں گیارہ سو دس افراد کا علاج کیا گیا ۔غیر سرکاری اورسرکاری اعداد وشمار کو جمع کرنے کے بعد ضلع بھر میں 2596 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی تھی جن میں چھ سو کے قریب خواتین شامل تھیں۔اسی طرح دیگر ذرائع سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق اس سال کل تین ہزار 97 افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہوئے۔
سوات میں ڈینگی وائرس 2013 میں پھیلنا شروع ہوا تھا۔اِسی سال سرکاری اعداد وشمار کے مطابق آٹھ ہزار افراد متاثر ہوئے جبکہ57 افراد جاں بحق ہوئےتھے۔غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق کل75 افراد کی ہلاکت ہوئی جبکہ تیس ہزار سے زائد افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔2014 اور2015 میں بھی ڈینگی کے کیسز سامنے آئے۔محکمہ ہیلتھ سوات کے مطابق 2016 سے 2018 تک سوات میں ڈینگی کا کوئی بھی کیس رپورٹ نہیں ہواتھا۔
موت کے منہ سے واپس لوٹنا میری خوش قسمتی تھی
ڈینگی وائرس کی تصدیق اورمرض کی شدت کے بعد پینتیس سالہ افتخار روخان کے لئے یہ بات یقینی ہو گئی تھی کہ اس کے زندہ بچ جانے کا کوئی امکان نہیں۔ وہ چار دفعہ اسپتال میں داخل کرائے گئے، شدید درد اور بخارنے اس کے اوسان خطا کردئے تھے اوراُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ زندگی کے آخری دن گن رہے ہیں۔ روخان کی طرح سوات میں ڈینگی سے متاثرہ ہزاروں مریضوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ تین سال کے بعد ڈینگی پھر سے وار کرے گا ۔
مینگورہ کے علاقہ نوے کلے کے رہائشی افتخار روخان نے گفتگو کے دوران کہا کہ اس سال انتظامیہ،محکمہ ہیلتھ اور واسا کی جانب سے ڈینگی کی روک تھام کے لئے انتظامات انتہائی ناقص رہے ’’ نا ہی کہی ڈینگی مار اسپرے کیا گیا اور نا ہی احتیاطی تدابیر اپنانے کے لئے آگاہی مہم چلائی گئی ۔جب مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو انتظامیہ کو ہوش آیا‘‘ افتخار روخان مزید کہتے ہے کہ جب میں بیمار ہوا تو ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی میرے جسم کو جنجھوڑ رہا ہے ،تیز بخار اور درد کی شدت نے میرے اوسان خطا کردئے تھے۔ ’’خدا خدا کرکے اسپتال پہنچا تو ایک کی بجائے پانچ پانچ ڈرپ لگائے گئے ۔ایک وقت ایسا آیا کہ زندگی کی آس ہی کھو بیٹھا تھا‘‘ افتخار روخان مزید کہتے ہیں اسپتال میں قائم کئے گئے وارڈز میں اچھی طرح سے علاج کیا گیا جبکہ ضروری ادویات بھی فراہم کی گئی۔
سردی اور ڈینگی ؟؟؟
وادی سوات میں آب وہوا کے سرد ہونے کے باعث یہاں پر ڈینگی وائرس کے افزائش کے امکانات انتہائی کم ہوتے ہیں، اس سال نومبر کے مہینے میں جہاں لوگ سردی سے ٹھٹھر رہے تھے وہی ڈینگی اپنےجلوے دکھا رہی تھی۔ سردی کے موسم میں ڈینگی کے کیسز کا سامنے آنا انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی کوتاہی کا منہ بولتا ثبوت ہے،محکمہ ہیلتھ سے وابستہ ڈینگی کے فوکل پرسن ڈاکٹر محی الدین نے گفتگو کے دوران بتایا کہ ڈینگی کی روک تھام کے لئے ضلع بھر میں اُنیس لائن ڈیپارٹمنٹ کو کام سونپا گیا تھا جبکہ صرف محکمہ ہیلتھ، واسا اور ٹی ایم اے نے ہی اقدامات اُٹھائے۔’’ سوات میں ڈینگی کی روک تھام کے لئے جتنا بھی کام کیا گیا وہ محکمہ ہیلتھ نے اپنے خرچے سے کیا،اس کے لئے ناہی صوبائی حکومت اور نا ہی انتظامیہ کی جانب سے ہمیں کوئی فنڈز ملے نا ہی دیگر مراعات دئے گئے‘‘
ڈینگی کے لئے کی جانے والے اقدامات
محکمہ ہیلتھ سے ملنے والی رپورٹ کے مطابق 20 مارچ2019 سے ڈینگی کے لئے کمیٹیاں بنائی گئی تھی، تحصیل کی سطح پر اسپتالوں میں ڈینگی سیل قائم کئے گئے تھے۔ مینگورہ شہر اور علاقہ گوگدرہ جو ہائی رسک زون ڈیکلئر کئے گئے تھے ان علاقوں میں 15 میڈیکل کیمپس بھی قائم ہوئے تھے ۔ رپورٹ کے مطابق دس آؤٹ ڈور اور انڈور ٹیمیں بھی تشکیل دی گئی تھی ، آؤٹ ڈور ٹیمیں گلی کوچوں میں سپرے کرتی رہتی اور نالیوں میں وائرس کے خاتمے کے لئے ادویات ڈالی جاتی۔ انڈور ٹیموں میں خواتین ہیلتھ ورکرز شامل تھیں جو گھروں میں جاکر آگاہی پھیلانے کے ساتھ احتیاطی تدابیر سے بھی لوگوں کو آگاہ کرتی رہتی ۔ محکمہ ہیلتھ کے مطابق کل اُنیس لائن ڈیپارٹمنٹ کو ڈینگی کے لئے مختص کیا گیا تھا جس میں صرف تین محکمے فعال رہے اور ڈینگی کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے گئے ۔ محکمہ ہیلتھ کے مطابق ضلعی مرکزی اسپتال سیدو شریف میں خصوصی ڈینگی ائسولیٹڈ وارڈز قائم کئے گئے جس میں ایک خواتین کے لئے اور ایک وارڈ مردوں کے لئے قائم کیا گیا تھا۔
مرض پھیلنے کی وجوہات
سوات میں 2013 میں ڈینگی وائرس کے پھیلنے کی وجہ گاڑیوں کے ٹائرز تھے، سائنس ڈاریکٹ کی ریسرچ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013 میں نوے ہزار کے قریب ٹائرز پنجاب سے سوات امپورٹ کئے گئے تھے جن میں ڈینگی وائرس اور لاروے بھی یہاں منتقل ہوئے تھے۔ ریسرچ رپورٹ کے مطابق 2014 اور2015 میں اُسی وائرس کے باقیات کی یہاں پر افزائش ہوتی رہی جبکہ 2015 کے اختتام تک اس کا خاتمہ ممکن ہوا اور اگلے تین سال یعنی2018 تک یہاں ڈینگی وائرس نا پھیل سکا۔
2019 میں ڈینگی وائرس کے پھیلنے کی بڑی وجہ احتیاطی تدابیر نا اپنانے اور بروقت اقدامات نا اُٹھانا تھی۔ محکمہ ہیلتھ کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی لا علمی اور بے احتیاطی نے وائرس کو پھیلنےاور افزائش کے لئے راہیں ہموار کی۔ مختلف میڈیا ارگنائزیشن کی رپورٹس کے مطابق اس سال انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی غیر تسلی بخش انتظامات بھی ڈینگی کے لئے راہیں ہموار کرتی رہی۔انوارمنٹل پروٹیکشن سوسائٹی کے ڈاریکٹر اکبر زیب نے اس حوالے سے بتایا کہ اس سال ڈینگی وائرس کے پھیلنے میں عوام اور انتطامیہ دونوں یکساں ذمہ دار رہی ،انتظامیہ یا متعلقہ اداروں کا خیال تھا کہ ڈینگی وائرس کا خاتمہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے احتیاطی تدابیر اپنانے، موثر اقدامات اُٹھانے اور آگہی پھیلانے میں کوتاہی کی’’ ڈینگی اب اتنا خطرناک نہیں رہا،روک تھام کے لئے طریقہ کار بھی معلوم ہے اور علاج بھی معلوم ہے اور عوام اب اس مرض سے وابستہ ہوتے رہتے ہیں، اس سال وائرس میں اضافہ کی وجہ ہی یہی تھی کہ انتظامیہ نے بھی کوتاہی کی اور عوام نے بھی احتیاطی تدابیر نہیں اپنائے جس کے باعث ہزاروں افراد اس مرض کا شکار ہوئے‘‘۔
روک تھام کےلئے موثر حکمت عملی
سوات میں ڈینگی کے مکمل خاتمے کے لئے اقدامات ناگزیر ہے۔ اگر اگلے سال بھی اسی طرح کی کوتاہیاں اور غفلت کی گئی تو تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے ۔ انوارمنٹل پروٹیکشن سوسائیٹی کے ڈاریکٹر اکبر زیب نے بتایا کہ وائرس کے مستقل خاتمے کے لئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ وہ موثر حکمت عملی اپنائے۔ اس کے لئے مستقل طور پر ٹیمیں تشکیل دیں اور سب سے بڑھ کر لوگوں میں آگہی پھیلائی جائے۔ محکمہ ہیلتھ کے فوکل پرسن ڈاکٹر محی الدین نے بتایا کہ اگلے سال کے لئے پہلے سے ہی حکمت عملی ترتیب دیں گے اور تمام لائن ڈیپارٹمنٹ کو اپنے ساتھ شامل کریں گے تاکہ ڈینگی وائرس کا مستقل طور پر خاتمہ ہو سکے۔