مجبوری ہے صاحب مسکرانا پڑتا ہے
دنیا میں ہر جگہ پرکوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جسے قدرت نے خصوصی عادتیں بخشی ہو۔راقم کا بھی ایسے بہت سے افراد سے واسطہ اور رابطے رہے ہیں جن کے ساتھ چھوٹے، بڑے، بوڑھے، جوان غرض سب خیالات کے حامل افراد پہلی ملاقات میں خوشیاں سمیٹ لیتے ہیں۔آج کی نشست ایک ایسے پرمزاح شخص کے نام کرنا چاہوں گا جو پورے بحرین میں اپنے پر مزاح طبعیت کی بدولت جانے جاتے ہیں اور جس کے ذمے ہر شخص کو ہنسانا ہی ہے۔
بقول امیر مینائی
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
گویا اس شخص نے ہر اس بندے کو ہنسانے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے، جس کے چہرے پر اداسی کے آثار دکھائی دیں۔مگر بعض لوگ ایسی چڑچڑے طبعیت کے مالک بھی ہوتے ہیں، جو مذاق یا مزاحیہ لوگوں کو بھی پسند نہیں کرتے، لیکن زیر موضوع شخص کے ساتھ ہٹلر طبعیت کا مالک بھی خندہ پیشانی کے ساتھ ملتا ہے۔ہمارے معاشرے میں یہ تاثر عام ہے کہ مولوی حضرات زیادہ سنجیدہ قسم کے لوگ ہوتے ہیں، اس شخص کے ساتھ مولوی حضرات کی پرمزاح گفت و شنید اس تاثر کو بھی ختم کردیتا ہے۔
ہاں! اس کا نام ظفر ہے، مسٹر ظفر کو بھلا کون نہیں جانتا، ان کا اخلاق اور پرمزاح طبعیت کی بناء پر کسی کے سامنے بھی نام لو تو زیر لب مسکرا کر بولے گا ’’ہمارا یار ظفر‘‘
راقم تو اسے ہمیشہ لوگوں میں پیار بانٹنے کے باعث جانتا ہے۔کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ انسان میں نفرت کا ایک عنصر بھی موجود ہے، مگر مسٹر ظفر اس احساس سے ہی کیوں نا اشنا ہے، مگر خیال آتا ہے کہ وہ بھی تو نفرت بانٹ سکتا ہے، لیکن وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ نفرت سے انسانوں کے مابین فاصلے پیدا کرتا ہے۔جب بھی ملا ہوں اسے اتنا ہسا ہوں کہ پیٹ میں بل پڑگئے ہیں۔ اور دو دن تک اس کی بات یاد رہتی ہے اور میں ہنس ہنس کے پاگل ہوجاتا ہوں۔
قارئین کرام! ایک دوسرے کے درمیان اچھے طریقے سے رہنا سیکھو، تاکہ آئندہ آنے والی نسل ایک دوسرے کے ساتھ بہتر خدمات انجام دیں۔
ایک دفعہ ظفر کے والد نے نیا سم لیا۔اور اسے کال کی کہ بیٹا اپنی امی کی دوائیاں دیکھو، ایک دوائی کا نام میں بھول چکا ہوں، ذرا نام تو بتادیں؟
ظفر حیران ہوا کہ اسے کیا ہوا ہے، یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ میرے والد کا نیا نمبر ہے۔ تو اس نے اپنے والد سے پوچھا آپ کون ہو؟
والد نے بھی ازراہ تففن جواب دیا میں تمہارے ماں کا شوہر۔
ظفر کا پارہ چڑھ گیا کہ تھوڑی شرم حیا کرو ایسے الفاظ استعمال کرتے ہو؟بڈھے ہوئے ہو آپ نمبر دیکھ کر ڈائل کرو۔
پھر اس نے دوسرے گھر کے نمبر پر کال کرکے اپنی ضرورت پوری کی۔
پھر گھر آیا اور اپنے بیٹے سے پوچھا یہ کیا بنا رکھا ہے اپنے والد سے ایسی باتیں کرتے ہو؟
آپ نے بھی اچھا ڈائلاگ چھوڑا ہے میری ماں کے شوہر۔
ظفر کے حقیقی زندگی میں بھی مذاق ہے۔جب اس کے بھائی نے اس کے لئے داخلہ لیا اور کہا کہ فلاں تاریخ کو ٹیسٹ ہے۔ کچھ ہی گھنٹے پہلے اسے کال ملائی کہ آپ آؤ، آپ کا ٹیسٹ ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں تو گبرال میں دوستوں کے ساتھ ٹور پر ہوں۔
ظفر بہت خوش اخلاق اور اچھا انسان ہے ہر ایک اس کا جگری دوست ہے۔یہ امن پسند اور خوشحال انسان ہے۔
یہ چاہتا ہے کہ یہ ہمیشہ دوسروں کو ہنساتے رہے۔ اسے دنیاوی کام بھی کم نہیں لیکن ہر ایک کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے ان کا شیوہ ہے۔
اس کے ساتھ جو بھی ملتا ہے یہی آرزو اور تمنا ہوتی ہے کہ بار بار ملوں۔
وہ یہ نہیں کہ صرف دوسروں پر مذاق کرتا ہے اپنے آپ کو بھی مذاق کی زد میں لیتے ہیں۔
ایک دفع کہتے ہیں کہ کیا آپ کو پتا ہے کہ مجھے کونسا موسم میں بنایا گیا؟
سب کو چپ سادھ گئی
وہ گویا ہوئے ۔سخت بارش تھی۔ فرشتے مجھے بنانے میں مصروف تھے جوں ہی وہ میرا چہرہ بنانے لگے۔ تو بارش اور تیز ہوگئی ۔ فرشتے نے مجھے ویسے ہی چھوڑ دیا۔ بعد میں میرے چہرے پہ مٹی رکھنا بھول گئے اور میری ایسی شکل بن گئی۔
ظفرہمارے لئے ایک مثال ہے ، ہمیں خود بھی خوش رہنا چاہئے اور دوسروں کو بھی ہنسانا اور خوش رکھنا چاہئے۔
مجبوی ہے صاحب مسکرانا پڑتا ہے