پروفیسر سیف اللہ خان

محکمہ تعلیم

محکمہ تعلیم | پروفیسر سیف اللہ خان

الراشی والمرتشی‘‘ ماحول میں جہاں اپنے مقصد اور غرض کے لیے چھوٹے اور عام قسم کے جرائم ہوتے ہیں اور جرائم کے لیے حکومتی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، وہاں مثبت تبدیلیاں لانا نہایت مشکل کام ہوتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔ بعض اوقات کسی معاملے میں خرابیاں اُس کے محاسن سے بڑھ جاتی ہیں اور ایک ایسا مرحلہ آجاتا ہے کہ اصلاح کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ محکمہ تعلیم سمیت ہمارے بہت سارے محکموں میں کمزوریاں بہت بڑھ گئیں ہیں، لیکن وہ اُس مقام تک نہیں پہنچی ہیں، جہاں سے واپسی یا اصلاح ممکن نہ ہو۔ بدقسمتی سے مغربی جمہوری نظام ہمارے اخلاقی نظام کے ساتھ معاون نہیں۔ ہمارے یہاں اقتدار کو ترقی کے لیے نہیں دولت کمانے کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ ہماری ستر سالہ سیاسی تاریخ اس پر شاہد ہے۔ ہمارا معاشرہ دو واضح ترین شعبوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ ایک اُن لوگوں کا شعبہ یا طبقہ جو فطرتاً نیک اور خدا سے ڈرنے والے اور قوانین کا احترام کرنے والے ہیں۔ دوسرا وہ شعبہ یا طبقہ جس کے افراد اُلٹ خواص والے ہیں۔ چوں کہ یہ دوسرا طبقہ عموماً زیادہ متحرک ہوا کرتا ہے، اس لیے یہ پہلے والے طبقے یا شعبے پر عموماً غالب رہتا ہے۔ اسی طرح دنیا میں دو نظام پائے جاتے ہیں، ایک رحمانی نظام اور دوسرا شیطانی نظام۔ غالباً ان کے متوالوں کے لیے قرآن نے اصحاب یمینے اور اصحاب شمالے قسم کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ قرآن کا پیغام یہی ہے کہ رحمانی نظام کو مضبوط اور شیطانی نظام کو نابود کیا جائے۔ دولت کے سیلاب سے محکمے مزید خراب ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اصلاحِ احوال کی ہوتی ہے۔ محکمۂ تعلیم میں واضح اکثریت اُن مخلص اساتذہ کی ہے جو اپنے سکولوں اور وہاں درس و تدریس کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور عموماً محکمہ تعلیم کی جعلی بیوروکریسی اور دفاتر کی نالائقیوں کا شکار رہتے ہیں۔ دوسرا لیکن چھوٹا سا حصہ اُن افراد کا اس محکمے میں اُن حضرات کا ہے جو سچائی، دیانت، امانت، محنت جیسے خواص کو ہنسی میں اُڑانے اور اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل پر یقین رکھتے ہیں اور انہی کے حصول کے لیے ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں۔ انہی افراد کے منفی کردار نے محکمہ تعلیم کو ناکامیوں اور کرپشن کی آماجگاہ میں تبدیل کردیا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے محکمہ تعلیم کی انتظامی، مالی اور منصوبہ سازی کے معاملات کے قریب تر رہنے کا لمبا موقعہ ملا ہے۔ اس لیے میری معروضات ذاتی تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہیں۔ اس حقیقت کو سوائے خودغرضوں یا نفسیاتی مریضوں کے ہر سنجیدہ شخص تسلیم کرتا ہے کہ بہت کم لوگ ہر فن مولا ہوتے ہیں۔ ہر کام کے اپنے لوگ ہوتے ہیں۔ سنار اور لوہار کے اوزار اور کام کے طور طریقوں میں بہت زیادہ مماثلت ہے، لیکن سنار، لوہار کا اور لوہار، سنار کا کام نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں خاموش طریقوں سے ایسے حالات پیدا کردیئے گئے ہیں کہ نہ جاننے والا اپنے آپ کو عالم سمجھتا ہے اور معاشرہ بھی اُس پر یقین کرتا ہے۔ پاکستان میں محکمہ تعلیم غریب کلرکس چلاتے ہیں۔ اُنیس بیس سکیل کا نام نہاد ’’آپ سر‘‘ صاحب صرف اور صرف اپنے کلرک ہی کے سہارے چلتا ہے۔ کلرکس کی بیساکھیاں ان ’’آپ سروں‘‘ سے ہٹادیجئے، تو پھر یہ کچھ بھی نہیں ہوتے۔ ان ’’آپ سروں‘‘ کا رویہ کارکن اساتذہ کے ساتھ بہت زیادہ آقا، غلام اور رعونت والا ہوتا ہے۔ مجھے کئی بار مشترکہ معائنے (جوائنٹ انسپیکشن) کے دوران میں یہ منفی رویہ دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔ اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جس طرح دورِ جدید میں باربرداری کا کام پرانے ذرائع باربرداری سے نہیں لیا جاسکتا، اُسی طرح اساتذہ، لکچررز، انجینئرز، ڈاکٹرز، فارسٹرز، ماہرین زراعت وغیرہ سے دفتری اور مالی و انتظامی امور کا کام لینا بے ثمر کام ہے، بلکہ یہ ایک نقصان دہ عمل ہے۔ کتنی عجیب اور افسوسناک حقیقت ہے کہ محکمہ تعلیم جو فی الوقت کروڑوں کا نہیں اربوں اور کھربوں کا بجٹ استعمال کرتا ہے۔ دوسرے نمبر پر شاید محکمہ صحت آتا ہے۔ ان بڑے بجٹ خور محکموں میں اکاؤنٹس سروسز کا ایک بھی آفیسر تعینات نہیں ہوتا۔ انتظامی امور کا کوئی بھی باوقار، بااعتماد ماہر آفسراِن محکموں میں نہیں ہے۔ ان محکموں کو فی الحقیقت کلرکس چلاتے ہیں جو خود بے شمار پریشانیوں اور کمزوریوں کا شکار طبقہ ہے۔ تین لاکھ کے قریب افرادی قوت اور دس ارب کے قریب ماہانہ تنخواہ لینے والے اس عظیم محکمے میں صرف ایک با قاعدہ آفیسر ہوتا ہے یعنی سیکرٹری ایجوکیشن۔ باقی اللہ اللہ خیر صلا۔ کھرب سے زیادہ بجٹ کے لیے پورے محکمے میں ایک بھی اکاؤنٹس گروپ کا آفیسر نہیں۔ نہ اس عظیم بجٹ کے اخراجات کا آڈٹ (اندرونی) کسی باقاعدہ آڈیٹر سے ہوتا ہے۔ سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ 1:۔ وہ بصورتِ ضرورت، قانون سازی کرکے پورے صوبے کی مالیاتی، انتظامی امور چلانے کے لیے باقاعدہ سروس میں او ایم جی (آفسز مینجمنٹ گروپ) کیڈر بنائیں، اس کیڈر کے لیے مکمل قانونی تحفظ ضروری ہے۔ تاکہ دو نمبر بیوروکریسی کو پنپنے کا موقعہ نہ ملے۔ صوبائی سروسز میں پی ایم ایس میں صوبائی اُو ایم جی گروپ بنائی جائے، تاکہ ہر محکمے کے انتظامی اور مالیاتی امور یہ آفیسرز بلاخوف و خطر اور دباؤ کے سرانجام دیا کریں۔ اس گروپ کے فرائض کسی بھی صورت میں کسی اور گروپ کے حوالے نہ کئے جائیں۔ ایجوکیشنسٹ، ڈاکٹرز، انجینئر وغیرہ موجود ہوں لیکن وہ اپنے ٹیکنیکل کام کے ذمہ دار ہوں، یہ اُو ایم جی آفیسرز کسی بھی ڈائریکٹر کے ماتحت نہ ہوں، لیکن براہِ راست سیکرٹری محکمہ کو جواب دہ ہوں۔ اُن کو مکمل تحفظات حاصل ہوں۔ 2:۔ پرائیویٹ سکولز مبینہ طور پر محنت کے ساتھ ساتھ کرپشن کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ تعلیمی بورڈز بھی نیک نام ادارے نہیں۔ اُن کی پرفارمنس آڈٹ اگر کی گئی تو خوفناک حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ چوں کہ محکمہ تعلیم تقریباً سو فی صد بد انتظامی کا شکار ہے، اس لیے یہ کسی بھی بورڈ کی اصلاح کرنے کے قابل ہے نہ یہ یونیورسٹیوں کی اصلاح کرسکتا ہے۔ جب تک اعلیٰ صلاحیتوں کے با اختیار آفیسرز یہاں تعینات نہیں ہوتے، بہتری کی امید صفر ہوگی۔ 3:۔ ایک ایک لاکھ روپیہ کا انعام محکمہ میں کرپشن (نقل کو مزید منظم طریقے سے کروانے؍ جعلی مارکس دلوانے) بڑھانے کا سبب ہوگا۔ چور اور چوکیدار کے متفق ہونے کا یہ ایک اور واقعہ ہے۔ ’’استادوں‘‘ کے محکمے میں مختلف فنڈز، پراجیکٹس کے ساتھ کیا عمل کیا گیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ 4:۔ خراب نتائج کی ذمہ داری مختلف عناصر کی ہوتی ہے۔ پہلے تو مسلمانوں کو لفظ علم اور تعلیم کے حوالہ سے کنفیوز کیا گیا ہے۔ دوسری اور اہم ترین وجہ محکمے پر مارکیٹ اور سرمایہ پرست افراد کا قبضہ ہے۔ تیسری وجہ سکول کی تعلیم سے ہم لوگوں کی مجرمانہ چشم پوشیاں ہیں۔ دکانداروں کا کردار بھی بڑا خوفناک ہے، جو خطرناک ترین نوٹس، پاکٹس وغیرہ اپنے منافع کے لیے فروخت کرتے ہیں۔ تعلیمی بورڈز میں چک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر خرابیاں ہیں، بچوں کی ترجیح اب کتاب نہیں بلکہ سمارٹ فون اور نیٹ ہیں جبکہ محکمہ تعلیم ان کی نسبت بہت پسماندہ ہے۔ 5:۔ نجی تعلیم کے نتائج بھی زیادہ تر جعلی ہوتے ہیں۔ ان پر اترانا نہیں چاہئے۔ آج اگر کسی دلیر اور قابل افسر نے ٹیسٹ چک کیا، تو کئی خباثتیں سامنے آجائیں گی۔ 6:۔ کئی حقائق قابل تحریر نہیں مکروہ ہیں۔ 

نوٹ : زماسوات ڈاٹ کام کا مصنف کے متن سے متّفق ہونا ضروری نہیں !

Related Articles

Loading...
Back to top button