کتنا بدل گیا انسان
کتنا بدل گیا انسان | ساجد علی سالارزئی
کچھ لوگ عہدہ ملنے پر بدل جاتے ہیں، تو کچھ پیسہ ملنے پر، کچھ لوگ دیہات سے شہر منتقل ہونے پر تو کچھ بیرون ملک جاتے ہی بدل جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ڈگری ملنے پر تو کچھ صرف داخلہ ملنے پر بدل جاتے ہیں کچھ لوگ وقت کے ساتھ خود بخود بدل جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا بدلاؤ نیکی کی طرف ہوتا ہے، تو کچھ ویسے ہی بدل جاتے ہیں۔ کچھ لوگ حالات کے ساتھ بدل جاتے ہیں، تو کچھ لوگ پیٹ بھرتے ہی اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔ کچھ لوگ موسموں کی طرح ہوتے ہیں جبکہ کچھ بدلنے کا نام تک نہیں جانتے۔ یہ بدلاو بھی کئی طرح کا ہوتا ہے۔ بولنے کا انداز ہو یا دیکھنے کا، رخ ہی بدل جاتا ہے۔ چلنے کا انداز بھی اور ملنے کا بھی۔ گرم جوشی سردمہری میں بدل جاتی ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ نئے لوگ مل جائے تو پرانے بھول جاتے ہیں۔ یہ ماحول اور حالات بدل جانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ماحول بدل جاتا ہے، چہرے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ مصروفیات بھی اور گپ شپ کا انداز بھی۔ عاجزی تکبر میں بدل جاتی ہے۔ اتنی شفیق لوگوں کی شفقت ختم ہوتے دیکھا ہے۔ نرم خو انسان کو سخت گیر الفاظ میں بدلتے دیکھا ہے۔ عام انسانوں کے علاوہ بڑے بڑے بادشاہوں کی اوقات بھی بدلتے دیکھا ہے۔ یہ اک تلخ حقیقت ہے کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ نصیب بھی بدلتے ہیں۔ اور نصیب بدلنے میں اللہ تعالی نے انسان کو بھی کسی حد تک اختیار دیا ہے
صبح کے تخت نشین۔۔۔ شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا ہے
کم ظرف لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے تو وہ بدل جاتے ہیں آسمان سر پر اٹھاتے ہیں۔ لوگ بھی خوش آمد کر کرکے ان کو سر پر بٹاتے ہیں۔ لوگوں کی رائے بدل جاتی ہے یہاں پر، کوئی اس کو ذہین سمجھنے لگتا ہے تو کوئی خوش نصیب کوئی قسمت دار تو کوئی محنتی کا نام سونپ دیتے ہیں حیثیت سے زیادہ عزت ملنے پر وہ اکثر تمیز نام کی چیز بھول جاتا ہے اسکا سوچ بدل جاتا ہے اور احساس برتری کا شکار ہو جاتا ہے
جو اعلی ظرف ہوتے ہیں، ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سر نگو ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
ایک رائے یہ بھی ہے کہ انسان بدلتا نہیں بلکہ بدلتے حالات کے ساتھ اس کا اصلی چہرہ سامنے آجاتا ہے
سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کہتا ہے کہ اگر انسان کے کردار کا اندازہ لگانا ہے تو اس کو طاقت دو ، طاقت آنے کے بعد اس کا رویہ جیسا بھی ہو یہ اس کا اصلی روپ ہے
جس طرح پشتو میں ہم کہتے ہیں “ہر بے وسہ سڑے خہ سڑے دے”
چاہے وقت بدلے یا حالات، زمانہ بدلے یا اوقات، انسان کا رویہ نہیں بدلنا چاہئے۔ کیونکہ بڑے لوگ بدلتے نہیں بلکہ بڑکپن ان کے رگ رگ میں رچی بسی ہوا ہوتا ہے
زمانہ تب بدلتا ہے جب انسان بدلتا ہے، اور انسان تب بدلتا ہے جب اسکا کردار بدلتا ہے۔ کردار سوچ بدلنے کا نتیجہ ہوتا ہے اور سوچ کا بدلاو زیادہ تر حالات سے تعلق رکھتا ہے۔
سورج نہ بدلا، چاند نہ بدلا، نہ بدلا یہ آسمان
کتنا بدل گیا انسان
اک زمانہ تھا جب بچوں کو کھیل کود سے منع کیا جاتا تھا، آج وہی لوگ اپنے بچوں کو سپورٹس اکیڈمیوں میں داخل کررہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اسے غیر نصابی سرگرمیوں کا نام دیا گیا ہے لہٰذا یہاں سوچ بدل گیا
بیٹوں کو والدین کے سامنے چھپ رہنے کا تلقین کیا جاتا تھا، آج بدلتے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹروں کا مشورہ بھی بدل گیا، کہ والدین کے ساتھ گپ شپ لگائے تاکہ وہ ڈیپریشن کا شکار نہ ہو
چھوٹے بچوں کو ہم بولنا سکھاتے ہیں، بڑے ہو کر چھپ رہنے کو کہتے ہیں۔ بچپن کا زمانہ جوانی میں بدل گیا۔
ہم اکثر دشمن کو چھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر اس کوشش کو ہم الٹا کرکے بڑے کام کرنے لگے، تو دشمن خود بخود چھوٹا رہ جائے گا۔ دوسروں کو چھوٹا ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ بڑے کام کرکے بڑے بن جائے۔
فتح مکہ مکرمہ کے موقع پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے بدلہ نہیں لیا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلّم جانتے تھے کہ بدلتے حالات کے ساتھ اب حکمت عملی بھی بدلنی ہوگی۔
مکہ کی سر زمین کو تلوار کی نوک پر فتح کیا لیکن لوگوں کے دلوں کو فتح کرنے کا انداز کچھ اور تھا۔ انھیں معاف کر کے فتح کیا۔
تو ہر کام میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کبھی سوچ کو بدلنا پڑتا ہے، تو کبھی کردار کو، حکمت عملی کو بھی اور رویہ کو بھی۔
ہمارا ملک بھی بدل سکتا ہے،جب نظام بدلے، اور نظام تب بدلے گا جب ہم عوام بدل جائینگے۔ اور عوام کا بدلنا ان کے سوچ سے مشروط ہے۔ عوام صرف سوچنے کا انداز بدلے، دل کے بجائے دماغ سے سوچے
جب بدلیں گے ہم، تب بدلے گا پاکستان