آج کی خبریںبین الاقوامی
امریکا اور طالبان کے درمیان پرتشدد کارروائیوں میں کمی کے معاہدے پر عملدرآمد شروع
اسلام آباد(ویب ڈیسک)امریکا اور افغان طالبان کے درمیان پر تشدد کارروائیوں میں کمی کے وعدے پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان ایک سال سے جاری مذاکرات کے نتیجہ خیر ہونے کا وقت آگیا ہے اور فریقین کے درمیان اعتماد سازی کی بحالی کے لیے 7 روز کے لیے پرتشدد کارروائیاں روکنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ فریقین کے درمیان افغانستان کے مقامی وقت کے مطابق جمعے اور ہفتے کی شب سے پرتشدد کارروائیوں میں کمی کے سمجھوتے پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ جنگ بندی پر عمل درآمد کامیاب رہا تو امریکا اور افغان طالبان امن کے ابتدائی معاہدے پر دستخط کریں گے جس سے تقریباً دو دہائیوں سے جاری جنگ خاتمے کے قریب پہنچ جائے گی۔ عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے تحت ایک ہفتے تک افغان طالبان، اتحادی فورسز اور افغان فورسز کے خلاف کسی بھی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
امریکی وزیر خارجہ کی عارضی جنگ بندی اور امن معاہدے کی تصدیق
اس حوالے سے امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے بھی عارضی جنگ بندی کے عمل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دہائیوں کی جنگ کے بعد طالبان کے ساتھ افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں کی کمی کے سمجھوتے پر اتفاق ہوچکا ہے جو کہ امن عمل کے لیے انتہائی اہم قدم ہے۔ مائیک پومپیو نے کہا کہ اس عارضی جنگ بندی کی کامیابی امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے کی جانب پیش قدمی تیز کردے گی اور اہم اس امن معاہدے پر 29 فروری کو دستخط کی تیاری کررہے ہیں۔
معاہدے کی تقریب میں کئی ممالک بطور گواہ شریک ہوں گے، طالبان کی تصدیق
دوسری جانب افغان طالبان نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان کا امریکا کے ساتھ 29 فروری کو ممکنہ طور پر امن معاہدہ ہونے جارہا ہے اور معاہدے کی تقریب میں کئی ممالک اور عالمی تنظیموں کے نمائندے بطور گواہ شریک ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کے ساتھ معاہدے کے تحت تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی اور کسی کو بھی افغان سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سہیل شاہین نے امن عمل میں حصہ بننے والے ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ امن عمل میں حصہ لینے والے قطر اور دیگر ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ امریکا نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد 2001 میں افغانستان پر چڑھائی کی تھی اور وہاں تقریباً 19 سال سے جنگ جاری ہے جس میں لاکھوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب کی مہم میں افغان جنگ کے خاتمے اور امریکی فوجیوں کے انخلاء کا وعدہ کیا تھا۔ یاد رہے کہ گذشتہ ایک سال سے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جس کے ذریعے امریکا اپنی طویل ترین جنگ سے چھٹکارہ چاہتا ہے۔ اس دوران امن مذاکرات کے متعدد دور چل چکے ہیں اور ستمبر 2019 میں فریقین معاہدے کے قریب بھی پہنچ گئے تھے تاہم کابل حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہونے کے بعد مذاکرات میں تعطل آگیا تھا۔ اس حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں سے طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کردی تھی۔ بعد ازاں دسمبر 2019 میں مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا لیکن بگرام ائیر بیس پر ہونے والے حملے کے بعد مذاکرات پھر معطل ہوگئے تاہم یہ مذاکرات ایک بار پھر شروع ہوئے جو نتیجہ خیز ہونے کے قریب ہیں۔