بے سکون فاتح اور پرسکون مفتوح
پاکستان کا سیاسی منظر نامہ 28 جولائی کے بعد سے یکسر تبدیل ہوچکا اور یہ تبدیلی اب دن بدن مزید واضح ہوتی جائے گی۔ وزارت عظمی کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ نہ وزیر اعظم کھل کر دل کی بات کہہ سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کھلے ڈلے جلسہ عام سے خطاب کر سکتا ہے۔ تول کر اور کنائے کی زبان میں بولنا اس عہدے کا تقاضا ہوتا ہے تو ہر کس و ناکس کو جلسہ گاہ میں نہ آنے دینا سیکیورٹی اداروں کی مجبوری۔ 28 جولائی کے بعد کا نواز شریف ان دونوں مجبوریوں سے آزاد ہو چکا۔ اور وہ مری و بہارہ کہو میں دیکھ چکا کہ عوام کی عدالت نے اسے تمام الزامات سے ہی بری نہیں کیا بلکہ وہ ان نادیدہ قوتوں کے خلاف میدان میں آنے کو بھی تیار ہیں جن کا نقشِ پا 2014ء کے دھرنے سے 28 جولائی 2017ء تک جا بجا بکھرا نظر آ رہا ہے۔ قانون کہتا ہے جج اور عدالت پر تبصرہ یا تنقید نہیں ہو سکتی، فیصلے کے ساتھ ہر طرح کا تنقیدی سلوک ہو سکتا ہے اور وہ فیصلہ شدید ترین تنقیدوں کی زد میں ہے جو نواز شریف کی رخصتی کا باعث بنا۔ جاوید ہاشمی سے محمود خان اچکزئی تک، عاصمہ جہانگیر سے جسٹس شائق عثمانی تک اور کالم نگاروں سے لے کر ٹی وی اینکرز تک رائے عامہ کا کونسا شعبہ ہے جہاں یہ فیصلہ شدید تنقید کی زد میں نہیں ؟ اور یہ اس فیصلے کا ہی نتیجہ ہے کہ جو سیاسی جنگ 28 جولائی سے قبل نواز شریف اور عمران خان کے مابین وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے تھی اب نادیدہ قوتوں اور سول بالادستی کے حامیوں کی جنگ میں بدلتی جا رہی ہے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی کوئٹہ میں کی گئی تقریر آنے والے موسموں کا حال بتا رہی ہے اور یہ موسم گہرے بادلوں اور طوفانی ہواؤں والے موسم لگ رہے ہیں۔ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں تو پہلے ہی غداری کے سرٹیفکیٹ بکھرے پڑے ہیں اور جنہیں یہ تھمائے گئے تھے ان کی ناراضگیاں آج بھی برقرار ہیں۔ کوئی ایک بھی قوم پرست تحریک ایسی نہیں جس کی قیادت کو غدار نہ کہا گیا ہو۔ بینظیر بھٹو جیسی چاروں صوبوں کی زنجیر کو ’’سیکیورٹی رسک‘‘ قرار دیتے ہوئے بھی نہ سوچا گیا کہ یہ ٹائٹل آگے چل کر کیا گل کھلائے گا۔ لے دے کر صرف پنجاب رہ گیا تھا۔ حالیہ عرصے میں پنجاب کے وزیر اعظم کو بھی مودی کا یار کہہ کر درحقیقت غدار ہی کہا گیا۔ چیئرمین سینیٹ بہت بروقت بولے ہیں۔ انہوں نے دیکھ لیا کہ چاروں صوبوں میں غداری کا سیکونس پورا ہوگیا ہے۔ اور جو بروقت کہا ہے وہ درست ہی تو کہا کہ ہمیں اسلام آباد یا راولپنڈی میں بیٹھے کسی شخص سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ نہیں چاہئے۔
ہمارے ایک دوست نے اپنے کالم میں اس بات کا ماتم کیا ہے کہ نواز شریف کی حمایت میں لیفٹ اور رائٹ یکجا کیسے ہو رہے ہیں ؟ اگرچہ یہ سوال بنتا نہیں کیونکہ خود ہمارے دوست جیسے صوفی درویش ان کے حامی چلے آ رہے ہیں جو جلسوں کے نام پر اوپن ایئر ڈانس پارٹیوں کا اہتمام کرتے آئے ہیں لیکن پھر بھی یہ سوال پیدا ہو گیا ہے تو اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ حضور آپ کو شاید نوشتہ دیوار پڑھنے میں مشکل کا سامنا ہے۔ نواز شریف کے اقتدار کی جنگ 28 جولائی کو ختم ہو چکی اور اس میں اپنے فاتح کو ہی پریشان کر دینے والی فتح انہی کو نصیب ہوئی ہے جن کا آپ دفاع کر رہے ہیں۔ جو اَب شروع ہوئی ہے یہ تو سول بالادستی کی جنگ ہے جس کا میدان پنجاب میں سجنے جا رہا ہے اور اس جنگ میں لیفٹ اور رائٹ کی تقسیم اب بے معنی ہو گئی ہے۔ اب تو دونوں کیمپوں کے تمام ’’غدار‘‘ آپ کو ایک ہی چھتری تلے نظر آئیں گے۔ اور یہ سب آپ کو بتائیں گے کہ غدار عوامی نمائندے نہیں ہوتے بلکہ غدار وہ آئین شکن ہوتے ہیں جنہیں آرٹیکل 6 کی کار روائی سے بچا کر فرار کروا دیا جاتا ہے۔ اب نواز شریف اپنی وزارت عظمیٰ کی بحالی نہیں بلکہ عوام کے اختیار کی جنگ لڑے گا۔ اس کے حریف اپنے سارے کارڈ کھیل چکے، ان کے پاس کھیلنے کے لئے اب کچھ نہیں رہا۔ اور نواز شریف کے سارے کارڈ محفوظ ہیں ،اب وہ اپنے کارڈ کھیلے گا اور اس کھیل میں وہ عوام کے بیچوں بیچ نظر آئے گا۔ آنے والے بدھ کو لاہور کا استقبال شاید ایک نئے نواز شریف کو جنم دے۔ ایک ایسا نواز شریف جو شاید اب کبھی بھی وزارت عظمیٰ کی طلب نہ کرے۔ جو شاید اپنے لئے مستقل بنیاد پر کنگ میکر کا کردار اختیار کرکے خود ہمیشہ عوام میں رہے۔ وہ عوام کو اپنی طاقت بنائے اور اس طاقت کو انہی کے اختیار کے لئے استعمال کرے۔ اور جب وہ ایسا کرے تو شاید نہیں یقیناًماضی اور حال کے سارے غدار اس کا ساتھ دیں۔
وہ نام نہاد محب وطن جنہیں بار بار سمجھایا گیا کہ ماضی سے سبق سیکھئے اور مہرہ مت بنئے ورنہ رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا وہ اب اپنے گھر سے بدکرداری جیسے سنگین الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں استعمال کرنے والوں نے فیصلے میں ان کے ہاتھ ایک بھی پوائنٹ پر فتح لگنے نہیں دی گویا جنہیں گلالئی دو نمبر پٹھان کہہ رہی تھیں وہ فاتح بھی دو نمبر ہی رہے۔ ابھی لیلۃ القمر نما یوم تشکر کی گونج ختم نہ ہوئی تھی کہ عائشہ گلالئی کی آواز کی گونج ہر گونج پر حاوی ہوگئی۔ اس گونج کا حاصل یہ ہے کہ جس پارلیمنٹ کو برا بھلا کہہ کر اس سے استعفے دئے گئے اسی پارلیمنٹ کے رحم و کرم پر اب ان کا اپنا مستقبل آگیا ہے۔ کیا پنامہ کیس کے دوران اچانک پیپلز پارٹی کے کئی رہنماء ان کے کیمپ میں بھیج کر درحقیقت شاہ محمود قریشی کو کمک پہنچائی گئی ہے ؟ کیا بنی گالہ آنے والے دنوں میں ایک سیاسی داستان بن کرہ رہ جائے گا اور پی ٹی آئی پر پیپلز پارٹی کے ان سابق قائدین کا قبضہ ہو جائے گا ؟ اگر ایسا ہوا تو کیا بنے گا مراد سعیدوں اور نعیم الحقوں کا ؟ اور اس برگر کلاس یوتھ کے آنسو کون سنبھالے گا جس نے نچ بلئے کے ایک طویل ایپی سوڈکو نیا پاکستان سمجھ لیا تھا ؟۔ کیسے کیسے سوالات ہیں جو بے سکون فاتح کے مستقبل پر حملہ آور ہیں اور ہر سوال کی قید سے آزاد کیسا پرسکون مفتوح ہے وہ جو عوامی اختیار کی تلاش میں جی ٹی روڈ پر نکلنے کو ہے۔ کل تک بے سکون فاتح عوام میں تھا اور پرسکون مفتوح وزیر اعظم ہاؤس کی قید میں۔ آج بے سکون فاتح بنی گالہ کا قیدی ہے اور پرسکون مفتوح عوام کے بیچوں بیچ۔ یہ سیاست کے پیچ دار کوچے ہیں، یہاں قسمت اور منظر بدلنے میں دیر نہیں لگتی !