آصف شہزادبلاگکالم/ مضامین

تین ضرب چار انچ کی “بوٹی” یا پاکٹ گائیڈز

تین ضرب چار انچ کی چھوٹی سی کتاب نقل کیلئے خفیہ طور پر استعمال ہونے والے پاکٹ گائیڈز یا بوٹی کے نام سے مقبول ہے ان گائیڈز پر دفعہ ۱۴۴ کے تحت پابندی کے باوجود امتحانات کے دوران یہ پاکستان کے بیشتر شہروں میں بغیر کسی رکاوٹ کے فروخت کئے جاتے ہیں۔جن کے استعمال سے بجا طور پر ہونہار طلباء کی حق تلفی ہوتی ہے تاہم اس کے باوجود بیشتر طالب علم پاکٹ گائیڈز یا بوٹی کو امتحانات میں کامیابی کیلئے کارآمد ذریعہ سمجھتے ہیں اور اب بات یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ جن طلباء کو پڑھنے میں دلچسپی تھی اور نقل کے ذرائع کو معیوب سمجھتے تھے اب وہ بھی ان مواد کے استعمال سے نہیں شرماتے کیونکہ امتحانی حال میں نقل کا استعمال عام ہے اور ان طلباء کے پاس دوسرا راستہ نہیں بچتا تو اپنی حق تلفی کے رد عمل کے طور پر ان میں پڑھنے اور محنت کرنے کی دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے اور ہونہار طلباء بھی اب نقل سے کام چلانے میں نہیں شرماتے۔

یہ بوٹی یا پاکٹ گائیڈز اتنے مقبول ہیں کہ کسی بھی شہر کے تقریباً ہر کتب فروش کے پاس دستیاب ہوتے ہیں۔امتحانات کے دوران پاکٹ گائیڈز کی طلب میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جس کیلئے بوٹی مافیا سے جڑے پبلشرز اور پرنٹرز دن رات کام کرتے ہیں اور کتب فروشوں کو بوریاں بھر بھر کے سپلائی کرتے ہیں ان کتب فروشوں میں ایک تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب ان گائیڈز پر پابندی کی خبریں آتی ہیں تو دکاندار ان بوٹیوں کو خفیہ طریقے سے فروخت کرتے ہیں تاہم اگر حکومتی اہلکاروں کی جانب سے کوئی مسلہ پیش آتا بھی ہے تو کچھ پیسے دیکر معامعلہ رفع دفع کرنا مشکل نہیں ہے

چند دن قبل سوات میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکینڈری ایجوکیشن کی جانب سے انٹر اور میٹرک کے امتحانات کا انعقاد کیا گیا جن میں طلباء کی جانب سے پیپرز کے بعد انوکھے انداز سے نقل کی کاپیاں ہوا میں اچھال کر برسائے کئے اور سڑکوں پر پاکٹ گائیڈز اور دیگر مواد کی ہزاروں پرچیاں پھینک کر چھوڑ گئے اس عمل کے تصاویر اور ویڈیوز سواشل میڈیا پر وائرل ہوئے تو مختلف مکتبہ فکر کے افراد نے اس عمل سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا۔

میٹرک کے امتحان میں مصروف ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ پیپر میں آئے ہوئے تقریباً ہر سوال کا جواب پاکٹ گائیڈ میں موجود ہوتا ہے جسے آسانی سے الگ کرکے لکھا جاسکتا ہے اگر حال میں سختی زیادہ ہو تو لکھنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جس سے کافی وقت ضائع ہوجاتا ہے تاہم پھر بھی بہت سے طریقے موجود ہیں جن کا استعمال کرکے ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کو چکما دیا جاسکتا ہے۔

پاکٹ گائیڈ المعروف “بوٹی” کا سائز اتنا چھوٹا ہے کہ طلباء اپنے ساتھ دو دو یا تین تین کاپیاں رکھتے ہیں،لہٰذا اگر حال میں سختی ہو تو طلباء کو کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ ایک پرزہ چھوٹ جانے سے لکھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کیونکہ طالب علم متعلقہ موضع کا دوسرا پُرزہ نکال لیتے ہیں اور یہ ایک عام عمل ہے جسے ہر کوئی کرتا ہے بس میں نے بتادیا اور زیادہ لوگ بتانے سے شرماتے ہیں لیکن میں ایک مرتبہ پھر دہراتا ہوں کہ یہ ایک عام عمل ہے جسے تقریباً ہر طالب علم کرتا ہے

ایک کتاب فروش کا کہنا تھا کہ پاکٹ گائیڈ کی فروخت چونکہ منافع بخش کاروبار ہے اسلئے دکانداروں کو امتحانات کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے اس کا کہنا تھا کہ عام دکانداروں کے علاوہ چند ایسے دکاندار بھی ہیں جن کے پاس فوٹو کاپی کی مشینیں لگی ہوتیں ہیں اور وہ پاکٹ گائیڈ سے بھی بہتر مواد فروخت کرتے ہیں جوکہ مشین کے ذریعے اچھے کاغذ اور صاف لکھائی کیساتھ چھاپے جاتے ہیں یہاں تک کہ جاری پرچہ کے دوران بھی طالب علم رفع حاجت یا پانی پینے کا بہانہ بناکر ان دکانداروں کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور مطلوبہ سوالات کے جوابات پرنٹ کرواکر امتحانی حال لے جاتے ہیں۔

ایک اسٹیشنری دکان کے مالک نے کہا کہ اگر حکومت پاکٹ گائیڈز کی فروخت بند کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو کتب فروشوں اور اسٹشنری دکانوں کے بجائے شائع کرنے والے پبلشرز اور پرنٹرز پر چھاپے مارکر کاروائی کریں کیونکہ جب تک یہ پاکٹ گائیڈز دستیاب ہونگے تو طالب علموں کیلئے ان کا حصول مشکل نہیں اور یہاں تک کہ آجکل آن لائن کاروبار کا رجحان ہے اور ان چیزوں کو آن لائن بھی کسی کوڈ ورڈ کا استعمال کرکے خریدا یا فروخت کیا جاسکتا ہے غرض جب تک یہ گائیڈز چھپتے رہینگے جدید دور کے طالب علم انہیں حاصل کرتے رہینگے کیونکہ نئی نسل کے پاس ان مواد کو حاصل کرنے کیلئے سینکڑوں طریقے موجود ہیں۔

Related Articles

Loading...
Back to top button