ایچ ایم کالامیکالم/ مضامین

جناب! ذمہ داری سنبھالیے

ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارا میڈیا ہمیشہ صرف حالات حاضرہ کے چٹ پٹے موضوعات کا بھوکا رہتا ہے۔ کبھی ایسے حل طلب مسائل کی طرف نہ میڈیا کا کیمرہ دیکھتا ہے نہ لکھاری کا قلم جنش لیتا ہے کہ جنہیں عالمی سطح پر اجاگر کرنے یا جن کے بارےعوام کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرنا لازمی ہو۔

شاید یہ بحیثیت قوم ہماری اپنی سوچ ہی کا نقص ہو۔ جیسا کہ میڈیا مجموعی نفسیات کو جانچ کر اپنا لائحہ عمل تیار کرتا ہے، تو ممکن ہے کہ ہمارا میڈیا جو ہمیں دکھا رہا ہے وہی ہمارے لئے زیادہ سے زیادہ دلچسپی کا باعث ہو۔ ورنہ کیا پڑی ہے میڈیا کو چائے والے کی نیلی آنکھیں، عمران خان کی شادی، ڈونلڈٹرمپ کی جگتیں اور اس قبیل کے غیر ضروری مباحثے کو چھیڑنے کی۔ ممکن ہے کہ ہمارے لئے ایسے موضاعات زیادہ سے زیادہ باعث تفریح ہوں اور ہم میڈیا کو ایسے موضوعات پر زیادہ فیڈ بیک دے کر چھیڑخانی کا موقع دیتے ہیں۔

وگرنہ میڈیا کا اولین مقصد تو عوام تک معلومات بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ پھر کیوں ہمارا میڈیا عالمی سطح پر درپیش موسمیاتی تغیر کا مسئلہ، تعلیمی بحران اور نو آبادیاتی مسائل کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا جن پر ساری دنیا سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارا میڈیا بھی بغل جھانک کر نہیں بیٹھ جاتا۔ ایسے سنگین مسائل سے نمٹنے کےلیے عوام کی ضرور راہنمائی فرماتا۔ اور ہم عوام کو ایسے مسائل پر غور و فکر کرنے پر آمادہ کرتا؛ اور ہم بھی اپنے اپنے حصے کی شمع جلاتے اور ترقی یافتہ لوگوں کے ساتھ چلتے۔ مگر اس جانب ہمارے جھکاؤ کا کوئی امکان تک ہی نظر نہیں آتا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ میڈیا کو ہم ریاست کا مبینہ چوتھا ستون ضرور سمجھتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کے مقاصد اور ذمہ داریاں واضح نہیں ہو پارہے ہیں؟

جہاں تک میری عاجزانہ رائے ہے تو سب سے بڑی رکاوٹ اور مسئلے کی جڑ ہماری روایتی سیاست ہی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں سیاست عالمی مسائل، ریاست کے نظم و ضبط، توانائی، تجارت، داخلی و خارجی مسائل اور اشتراک عمل جیسے معاملات پر کی جاتی ہے؛ لیکن بدقسمی سے ہمارے ہاں ”دوسری اور تیسری شادی، آلو کے نرخ، لیپ ٹاپ کی تقسیم، اسکول وردی‘‘ بلکہ اب تو ماشاء اللہ ہمارے سیاہ ست دانوں کے منہ سے جو اناپ شناپ بھی نکلے، اسے بھی سیاسی درجہ حرارت میں بڑی تبدیلی تصور کیا جاتا ہے۔

اب تو شرمناک، لعنت، پھٹیچر اور ”کیوں نکالا‘‘ جیسے الفاظ سیاسی حلقوں میں سیاسی بحث و مباحثے کا سبب اور اخبارات و ٹی وی چینلوں کےلئے بھرپور غذا بن جاتے ہیں۔

اب آپ ہی بتائیے کہ جب کسی جمہوری ریاست کا اہم ترین جزو ’’سیاست‘‘ ہی ایسے الفاظ کا محتاج ہو تو میڈیا کے مقاصد و ذمہ داریاں کیسے واضح ہوسکتی ہیں؟ انہیں تو بس اسی طرح کی چٹپٹی خبروں سے کا سہارا لے کر اپنی کمرشل ریٹنگ بڑھانی پڑے گی، جو ہر میڈیا ہاؤس کا بنیادی مقصد ہے۔

مگر پھر بھی بات آکر ہماری مجموعی سوچ پر رکتی ہے کہ جو میڈیا ”سوشل میڈیا“ کے عنوان سے اور عوامی اجتماعات کی صورت میں ہماری دسترس میں ہے، ہم اس پر بھی ٹھوس تجاویز اور حل طلب مباحثوں کے بجائے لعنت بھیج کر آگے شئیر کریں، سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے، ناپسندیدہ چیز کے آگے پیچھے ”گو“ لگا کر سمجھا جائے کہ بلا ٹل گئی؟

لیکن پھر سے وہی سوال سر اٹھاتا ہے کہ ہماری مجموعی دلچسپی غیر ضروری مباحثوں میں کیوں ہے اور ہم کیوں ایسے نکات پر بحث چھیڑنے کی خواہش ظاہر نہیں کررہے جو ایک ترقی یافتہ ملک کی تشکیل کےلیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں؟ تو جواب بھی پہلے سطور میں واضح ہے کہ ہمارے سیاہ ست دانوں کی ذہنی پہنچ جہاں تک ہے، وہیں ہم بھی کھڑے ہیں۔

اب چند دنوں سے ”پارلیمنٹ پر لعنت“ کی بحث ایوانوں، میڈیا اور عوامی مقامات سے لے کر سوشل میڈیا تک میں آگ کی طرح پھیل چکی ہے۔

عمران خان صاحب بھی عجیب سیاست دان ہیں کہ جن کے منہ سے نکلے الفاظ زیادہ سے زیادہ متنازعہ بنتے ہیں۔ انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو انصاف دلانے کی خاطر اپنی دانست میں ایک بڑے چور ڈاکو برداشت کیا۔ طاہرالقادری کی آدھے راستے کی یاری بھی بھول گئے اور کنٹینر پر چڑھے، مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ شیخ رشید کے تقریری جذبات کو ہضم کرلیتے اور تھوڑی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’پارلیمنٹ پر لعنت‘‘ والے جملے کو مزید زور دے کر پیش نہ کرتے۔ ارکان پارلیمنٹ پر اپنے دل کا خوب بھڑاس نکالتے لیکن پارلیمنٹ پر چپ سادھ لیتے، جس کے وہ خود بھی رُکن ہیں اور ان کے بہت قریبی ساتھی بھی۔

جس طرح اسمبلی سے استعفوں پر پارٹی مشاورت یاد آئی اسی طرح ’’لعنت‘‘ پر بھی پارٹی مشاورت لیتے تو نہ شریک حزب اختلاف پیپلز پارٹی اور خود اپنی پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے اپنی تقریر کی مذمت نہیں سننا پڑتی۔

پارلیمنٹ سے حاصل ہونے والی متفقہ قراردادوں کو ابلاغ عامہ کے ذریعے عوام تک پہنچانا ناگزیر ہے اور عوام کو باخبر رکھے بغیر کوئی بھی قرارداد اہمیت نہیں رکھتی۔ لیکن ہمارے میڈیائی معیار کے کیا کہنے کہ اگلے دن اخبارات میں سپر لیڈ کچھ یوں بنی ”پارلیمنٹ پر لعنت مسترد“ جیسے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی بھی جاسکتی ہے، لیکن مسترد ہوگئی؟

میڈیا پر لعنت کے لفظ کا حاوی ہونا تھا کہ اس دن سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا اور عوامی مقامات سے زینب قتل کیس، ڈی آئی خان میں معصوم لڑکی کے ساتھ زیادتی اور بہت سارے حل طلب موضوعات کے اوراق پلٹ گئے اور لعنت کے لفظ پر تبصرے شروع ہوگئے۔

ورنہ اس پر بحث کی چنداں ضرورت ہی نہیں۔ سیدھا سادہ جواب سب کے پاس ہے ’’پارلیمنٹ لعنت بھیجنے سے نہیں، ایماندار لوگ بھیجنے سے ٹھیک کی جاسکتی ہے۔‘‘

اگر ایماندار نہیں ملے اور بے ایمان لوگ بھیجے گئے ہیں تو ہم ہی نے اپنی ووٹوں کے ذریعے بھیج دیئے ہیں۔ پھر لعنت کیوں؟ کئیوں کا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے کب بھیجا، ’’یہ بے ایمان تو دھاندلی کرکے پہنچ گئے ہیں!‘‘ تو پھر لعنت ان پر بھیجئے جن کے ذریعے ٹھیک ٹھاک اداروں کی موجودگی میں ’’دھاندلی کرائی گئی۔‘‘ اگر آپ کے بقول دھاندلی کرکے بے ایمان لوگ پارلیمنٹ میں بھیج دیئے گئے ہیں تو ان بے ایمانوں کو بھیجنے والوں پر نہ صرف لعنت بھیج کر بری الذمہ ہوجایئے بلکہ ان کے خلاف بڑی عدالتوں میں مقدمہ لڑیئے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ عدالت میں کوئی شنوائی نہیں ہورہی تو خود اپنی ’’سیاست‘‘ پر لعنت بھیجیے کہ آپ تین سو سے زائد جمہوری سیاسی پارٹیاں مل کر ایک اسلامی جمہوری ریاست کو چلا رہی ہیں اور کسی ایک ادارے پر بھی آپ کا اعتماد بحال نہیں ہوسکا۔

جناب! عرض یہ ہے کہ آپ ریاست کے اہم ترین جزو کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ اپنی ذمہ داری سنبھالیے تو لعنت بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور بس!

Related Articles

Loading...
Back to top button